معاشرتی کہانیاں

آگہی

اپنی ذات کی کھوج اور اپنی پہچان کی تلاش تو شاید میرے ساتھ ساتھ ہی پروان چڑھی تھی،،میں کون ہوں؟میں کیا ہوں؟میں کہاں ہوں اور مجھے کہاں ہونا چاہیے تھا؟یہ وہ سوال ہیں جو میں اکثر خود سے کرتی تھی اور پھر جب ان سب سوالوں کا جواب ملا تو سوچتی ہوں لا علمی کتنی بڑی نعمت تھی جو میں نے اپنے تجسس کی نذر کر دی آگہی تو ایسا عذاب ٹھرا جو میرا سکون چھین کر لے گیا سکھ اور اطمینان کیا ہوتا ہے میرے تجسس نے ان لفظوں کو بے معنی کر دیا ہےمیری زندگی بھی کیا ہے؟ایک بھنور سے نکلی تو دوسرے میں پھنس گئ کوئی انسان عرش سے فرش پر کیسے آتا ہے یہ مجھ سے ذیادہ کوئی نہیں جان سکتا ہر وقت کی وحشت اور ناامیدی نے مجھے کھوکھلا کر دیا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے اور مجھے انجانے رستے پر چلنے کے لئے چھوڑ دیا ہے میں جانتی ہوں کہ آگے اندھا کنواں ہے لیکن کیا کروں پیچھے بھی تو کھائ ہے میری ذات کی کھوج نے مجھے وہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں آگے تمام رستے دھندلے اور منزلیں بے نشاں ہیںانسان جو باتیں پی جاتا ہے وہی باتیں اس کو کھا جاتی ہیں قطرہ قطرہ اندر اترنے والا زہر آخر کار ایسی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کا کوئی تریاق نہیں ہوتا پل پل کا مرنا اور پل پل کا جینا کیا ہوتا ہے یہ وہی انسان جانتا ہے جو دوراہے پر کھڑا ہو اس کے اندر موجزن سوچوں کا طوفان کبھی تو اس کو چین اور آرام کے ہنڈولوں میں جھولے جھلاتا ہے اور کبھی کانٹوں بھرا نخلستان اس کے اندر کے درد کو سوا کرتا ہے سوچیں بھی کیسی سواری ہیں جو کبھی تو رنگ و بو اور پریوں کے دیس میں لے جاتی ہیں اور کبھی دیو ہیکل جنات کے دیس میں بھیانک وجود کے ساتھ منہ پھاڑے، چیختے چنگھاڑتے اپنی دحشت کی لپیٹ میں لینے کو تیار ۔۔۔۔۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا معاملہ ہے تلخ سوچوں کی اتھل پتھل کے ساتھ ماضی کی خوبصورت یادیں جو مجھے پریوں کے دیس کی مسحور کن فضا میں لے جاتی ہیں جہاں خوشیاں ،راحتیں ہیں، پھولوں اور خوشبووں کا دیس ۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہیں وہ دن اور وہ راتیں جب زندگی کسی نو خیز بہار کی طرح خوبصورت تھیمیرا بچپن ایسا شاندار گزرا جس کی چاہ ہر کسی کو ہوتی ہے ناز، نخرے، لاڈ ان سب لفظوں کے معنی مجھ سے ذیادہ کوئی نہیں جان سکتا کون سی ایسی خواہش تھی جو میں نے کی اور وہ آن کے آن پوری نہ ہوئ ہو ۔۔۔۔میری ذات سے جڑے تمام رشتے ایسے جانثار کہ میں ہنستی تو وہ ہنستے میں روتی تو وہ روتے میں دن کو رات اور رات کو دن کہتی تو وہ میرے ہمنوا ہوتےمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں میں شدید بیمار ہو گئ امی ابو، فائزہ آپی، اسد بھائی، بلال بھائی سب سخت پریشان تھے اسد بھائی کی تو گویا مجھ میں جان تھی وہ اپنی تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے ویک اینڈ پر جب گھر آتے تو میرےلئے میری پسند کی ڈھیر ساری چیزیں لاتے اب کی بار وہ آئےتو مجھے بیمار دیکھ کر سخت پریشان ہونے مجھے اپنے ہاتھ سے دوا دیتے اور میرے سرہانے لگے رہے کبھی کبھی تو الجھ پڑتے کہ امی نے اور فائزہ نے گڑیا کا خیال نہیں رکھا جس کی وجہ سے بیماری زور پکڑ گئ رات کو میرے تکئے کے نیچے پیسے رکھتے اور صبح اٹھ کر صدقہ کر دیتے یہی حالت فائزہ آپی کی تھی وہ بھی کالج سے چھٹی کر کے بیٹھ جاتیں امی نے بہت سمجھایا کہ میں گڑیا کی کئیر کر لوں گی تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو لیکن وہ کہاں ماننے والی تھیںاللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر ایک حس رکھی ہے کہ وہ اپنے اوپر اٹھنے والی نگاہ کا مفہوم اور معنی بخوبی بھانپ لیتا ہے لفظوں کی ضرورت نہیں رہتی میں نے بھی شعور کی منزل کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے محسوس کرنے لگی تھی کہ مجھ پر پڑنے والی اکثر نظریں سوال کرتی معلوم ہوتی ہیں ان کااستفہامیہ انداز مجھے پریشان کر دیتا میں کہیں سے گزرتی تو چہ میگوئیاں میرے قدم روک لیتیں بعض اوقات تو میں اس کو محض اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیتی لیکن آخر کب تک؟پھر یوں ہوا کہ میری ذات کے متعلق سوالات مجھ سے براہ راست پوچھے جانے لگے ۔۔۔کیا تم اپنے ماں باپ کی سگی اولاد ہو؟یہ وہ سوال تھا جومیرے اوپر لرزہ طاری کر دیتا، میں خوفزدہ تو ہوتی ہی تھی ساتھ متجسس ہوتی گئ سکول و کالج میں یہ سوال میری ذات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتاابو جان کا شمار شہر کی مشہور و معروف شخصیات میں ہوتا تھا میرے سکول و کالج کا تمام سٹاف، میری سہیلیوں کے گھر والے سب لوگ ان سے واقف تھے جب ان کا نام لے کر پوچھا جاتا،،آپ واقعی ابرار احمد کیسگی بیٹی ہیں؟،،میں گڑبڑا جاتی اور حیرت سے پوچھنے والے کا منہ دیکھنے لگتی اب میں اس سوال سے چڑنے لگی تھی،،بھلا ابو جان کے علاوہ میں کس کی بیٹی ہو سکتی ہوں؟مجھے شدید غصہ آتاکبھی کبھی آپ حقیقت سے نظریں چراتے ہیں لیکن وہ آپ کے سامنے ایسی چٹان کی طرح آ کر کھڑی ہو جاتی ہے کہ آپ لاکھ اس کو دھکیل کر راستہ بنانے کی کوشش کریں گے وہ نہیں ٹلتیہوا یوں کہ میری کلاس میں ایک نئ لڑکی آئ اس سے تعارف ہوا تو وہ ابو جان کے قریبی دوست کی بیٹی تھی انگلش کے پیرئیڈ کے بعد بریک ہوئی تو میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گراونڈ میں بیٹھی تھی وہ بھی وہیں آ گئی میں بہت خوش دلی سے اس ملی باتوں باتوں میں اچانک وہ کہہ اٹھی،،ویسے انکل ابرار احمد بہت گریٹ انسان ہیں ورنہ آجکل کے جو حالات ہیں کون کسی کی اولاد کو پالتا ہے، ،میرے قدموں تلے سے ذمین کھسک گئی اور میں حیران و پریشان اس کا منہ دیکھنے لگی میری ندامت اور شرمندگی کا یہ عالم تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں میرا چہرہ زرد پڑ گیا اور تمام لڑکیاں ترس کھاتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگیں میں وہاں سے ڈگمگاتے قدموں اور لرزیدہ جسم کے ساتھ کلاس روم میں چلی آئیچھٹی کے وقت گھر آئی تو سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا سب ایک دم غیر اور پرائے لگنے لگے ایک طوفان تھا جو میرے اندر برپا تھا دل چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کا گریبان پکڑوں اور پوچھوں کہ بتاو میری حقیقت کیا ہے؟فائزہ آپی میرے کمرے میں آئیں اور بولیںگڑیا کیا بات ہے آج کسی سے ملے بغیر ہی خاموشی سے اوپرچلی آئی ہو؟کچھ نہیں آپی ۔۔۔۔۔۔میں نے ان سے نظریں ملانے بغیر ہی جواب دیا ۔۔۔بس سر میں درد ہے ۔۔کہہ کر تکئے میں اپنا منہ چھپا لیاآپی میری اس حالت سے پریشان ہو گئیں انہوں نے آگے بڑھ کر میرے منہ سے تکیہ ہٹایا دیکھا تو میرا چہرہ آنسوؤں سے تر تھاگڑیا ۔۔۔میری جان ۔۔کیا ہوا؟مجھے سینے سے لگائے، میرے بالوں کو سہلاتی ہوئی آپی مجھے اس وقت تپتے صحرا میں نخلستان معلوم ہوئیں اور میں ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیمیں روتی جا رہی تھی اور ہذیانی کیفیت میں پوچھتی جا رہی تھیآپی بتائیں نہ میں کون ہوں؟کیا میں امی ابو کی بیٹی نہیں ہوں؟میں کہاں سے آئی ہوں؟آپی میری اس حالت سے سخت گھبرا گئیں انہوں نے مجھے خوب پیار کیا اور بولیںگڑیا تم یہ سب کیوں کہہ رہی ہو؟تم میری جان ہو، میری اپنی چھوٹی بہن ۔۔۔یہ خرافات تم سے کس نے کہی ہیں؟میں نے روتے روتے تمام واقعہ ان کو بتایا وہ بھی مضطرب ہوگئیںیہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا، اپنی ذات کی کھوج اب میری زندگی کا مقصد بن گئی تھیمیرے ابو جان، ایک شجر سایا دار، ان سے خود کو الگ کر کے سوچنا بھی میرے لیے سوہان روح تھا لیکن میں اپنے اندر اٹھتے جوار بھاٹے کا کیا کرتی؟اب تو امی سے بھی سوال کرتی، ،امی بتائیں نہ میں کون ہوں؟میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہے؟یہ سوال مجھ سے ہی کیوں پوچھا جاتا ہے؟فائزہ آپی، اسد بھائی، بلال ۔۔۔۔کسی کو بھی تو ایسے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتاامی مجھے محبت سے اپنے ساتھ لپٹا لیتیںنہ میری گڑیا، ،ایسے نہیں سوچتے، تم تو میری زندگی ہو، میری خوشی ہو ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے خواہ مخواہ خود کو ہلکان نہ کیا کروان کی تسلی ایک طرف اور میرا تجسس ایک طرف ۔۔۔۔میرا تذبذب کسی صورت مجھے چین نہ لینے دیتا مجھے اپنے جانثار رشتے پرائے لگنے لگے عجیب طرح کی وحشت مجھے ہر وقت گھیرے رکھتی میں اپنے وجود پر نظر ڈالتی تو سوچتی۔۔میرا وجود کس کے وجود کی بدولت اس دنیا میں آیا ہو گا؟میری رگوں میں کس کا خون دوڑ رہا ہے؟کبھی سوچتی اگر امی ابو جیسے فرشتہ صفت لوگ نہ ہوتے میں آج کہاں ہوتی؟میرے ابو سراپا محبت، مجھ پر قربان جانے والے ۔۔۔ان کی تو دنیا مجھ میں آباد تھیوقت کا پنچھی پر لگا کر اڑتا رہتا ہے اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون اس کی اڑان میں اس کے ساتھ ہے اور کون پیچھے رہ گیاہے وقت کی اڑان کے ساتھ میری متجسس اور طلاطم خیز سوچوں کو بھی کنارہ مل گیا مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب مل چکا تھاہوا یوں کہ ابو کی طبیعت کچھ دن سے خراب تھی وہ گھر پر ہی آرام کرنے لگے ان کی گرتی ہوئی صحت کو لے کر ہم سب بہت فکر مند تھے اور کسی طوپربھی نہیں چاہ رہے تھے وہ کاروباری ذمہ داریاں اٹھائیں میں ان کی لاڈلی جو ٹہری سو وہ چاہتے تھے کہ میں ہر وقت ان کے ساتھ رہوں ان کی دیکھ بھال کروں میں اور امی ہی ان کی دیکھ بھال کر رہیں تھیںاس دن امی نے مجھے کہا،گڑیا تمہارے ابو اٹھ گئے ہیں ان کا ناشتہ ان کے کمرے میں لے آنا میں ان کی میڈیسن نکالتی ہوںمیں لاڈ سے امی سے لپٹ گئی ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہامیری پیاری ماں، پریشان مت ہوں آپ کی عزیز از جان بیٹی حاضر ہے میں ابھی ناشتہ لائیامی میرے اس شرارت بھرے انداز پر مسکرا دیں، میرے گال پر تھپکی دی اور ابو کے کمرے کی طرف چل دیں میں نے جلدی سے ابو کےلئے ناشتہ بنایا اور ان کے کمرے کا دروازہ کھولنے ہی لگی تھی کہ اندر سے ابو کے ملتجیانہ الفاظ اور امی کے رونے کی آواز نےمجھے چونکا دیاالفاظ کیا تھے بارود کے گولے جو میری سماعت سے ٹکرانے اور مجھے ساکت کر دیا، میں لرز گئی، میرے قدم پتھر کے ہو گئے یوں لگا ایک زور دار آندھی آئی اور مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جانے گی میری آنکھیں پھٹی رہ گئیںابو امی سے التجا کر رہے تھے،،سائرہ تم میری بیماری سے واقف ہو، میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا اور مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے بعد بھی گڑیا کو وہی مقام دو گی جو اس کو حاصل ہے کبھی اس کو یہ احساس نہ ہونے دینا کہ وہ تمہاری کھوکھ سے پیدا نہیں ہوئیبات صرف یہاں تک ہی محدود نہ تھی یہ میرے سوالوں کے جواب کا وقت تھا ابو کے اعتراف گناہ اور معافی کا وقت تھا جس کے وہ امی سے طلبگار تھے ان کی زبان سے نکلنے والے تمام الفاظ میرے وجود کو آری کی طرح چیر رہے تھےمیں ابو کی ناجائز اولاد ہوں؟اوہ میرے خدا!!!!۔۔۔۔ایک ناپاک وجود؟۔۔۔ابو کے گناہوں کا اعتراف مجھے کم مائگی اور کراہت کے اس مقام پر لے گیا تھا جہاں کھڑی میں فقط موت کی خواہش کر رہی تھیمیں نے چیخنا چلانا چاہا لیکن میری گونگی چیخیں اندر ہی گھٹ کر رہ گئیںمجھے میرے تمام سوالوں کا جواب ایک خوفناک اور بھیانک حقیقت کی صورت میں مل چکا تھا ابو کی باتیں ایک تازیانہ تھیں میری ذات کا نوحہ ہی کہہ لیںتو یہ تھی میری حقیقت ۔۔۔۔ایک ناجائز اور ناپاک وجود۔۔۔۔واہ ری تقدیر ۔۔۔مجھے ابو کی جانثاری اور نوازشات اب سمجھ آئی وہ شخص کسی طور انسان کہلانے کے لائق نہیں تھا وہ ایک گدھ تھا، ایک بھیڑیا ۔۔یہی وہ شخص تھا جس نے میری حقیقی ماں کو برباد کیا اس کا ہنستا بستا گھر اجاڑنے والا یہی وہ درندہ تھا جس کو تمام عمر فرشتہ سمجھتی رہی اور میں ۔۔۔۔میں اسی کی ناجائز اولاد ۔۔۔۔اور اس سے بھی ذیادہ درد ناک اور تلخ حقیقت ۔۔۔میری سگی ماں اس کی بھابھی تھی ۔۔میرا باپ اس کا سگا بھائی ۔۔وہ ایک غریب اور مجبور آدمی تھا ان کی مالی اعانت اور معاونت کا معاوضہ میرے، ،ابو جان، ،نے میری ماں کے جسم سے لیا ۔۔میری ماں کی مجبوری ۔۔میرے باپ کی غربت کا ایسا سودا جو میری صورت میں طے ہوامیری غریب ماں بے بسی سے اس وحشی کا شکار بنتی رہیبلآخر ایک دن میرے والد کو اس بات کا علم ہو گیا مرد خواہ کتنا بھی مجبور کیوں نہ ہو جائے ایسی شراکت قبول نہیں کرتا انہوں نے میری ماں کو بنا کسی صفائی کا موقع دیے میری ماں کو طلاق دے دی ہمارا کمزور سہارے کے آسرے پر کھڑا آشیانہ زمین بوس ہو گیامیری ماں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کےلئے زندہ رہ گئیمیں پیدا ہوئی تو میری لاچار اور بے آسرا ماں اپنا بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی مجھے کیسے پالتی؟اس نے مجھے اٹھایا اور پھٹے پرانے کپڑوں میں لپیٹ کر ابو کے گھر کے دروازے پر پھینک گئی اور خود دنیا والوں سے منہ چھپائے نجانے کہاں نکل گئیگھر کے ملازمین نے مجھے اٹھایا اور امی ابو کے حوالے کر دیا ۔۔۔دنیا میں کون کسی کا راز رکھتا ہے لوگوں کی زبانیں پکڑی نہیں جا سکتیں، ،خلقت خدا کہنے کو فسانے مانگے، ،،یہ بات بھلا کہاں راز رہ سکتی تھیتو یہ تھی میری حقیقت ۔۔لوگوں کی متجسس اور چبھتی ہوئی نگاہوں میں چھپے سوالوں کا جواب ۔۔۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button