معاشرتی کہانیاں

اجڑی کھوکھ

دیکھ سکینہ!!!میں اب اتنی سی بات پہ اپنے بہن بھائیوں کو تو نہیں نہ چھوڑ سکتاا ناں۔۔۔۔۔تیرا تو دماغ چل گیا ہے خواہ مخواہ بات کو بڑھاوا دے رہی ہے
رشید مسلسل سکینہ کو سمجھنا رہا تھا لیکن وہ تھی کہ سسرال والوں کو کوسنے اور صلواتیں سنانے سے باز ہی نہ آ رہی تھی
سکینہ کی نند شاہدہ کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں رشید کے ابا یعنی سکینہ کے سسر نے اپنے تینوں بیٹوں کے ذمہ کچھ سامان کا انتظام کرنا لگایا تھا رشید کے باقی دونوں بھائیوں اور بھابھیوں نے بخوشی اس پر حامی بھر لی ایک بھائی کی بیوی تو شاہدہ کی نند تھی یعنی وٹے سٹے کی شادی تھی اس لئیے اس کو اپنی بھتیجی کی شادی کےلئے کچھ دینا بار نہ لگا جبکہ دوسرے بھائی کی بیوی کو بھی اپنے سسر کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن سکینہ کو تو جیسے اپنے سسر کے فیصلے کے بارے میں جان کر ایسی تپ چڑھی کہ الامان والحفیظ
“- نہ شیدے تو مجھے یہ بتا جب ابا اپنی زمین کی پیلیوں کا اپنے بیٹوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر رہا تھا اس وقت تو تجھے کسی قطار شمار میں نہیں رکھا اب جب نواسی کی شادی میں دینے دلانے کا معاملہ آیا تو ابے کو سب سے پہلے تیرے سر پر برابر کا بھار ڈالنا یاد آ گیا؟-“یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟
“نہیں تو ابے نے کونسا پکا کام کر کے زمین کے کاغذ بھی ان کو تھما دئیے ہیں؟بس ایک بات ہی ہے ناں-“
تو تو ایسے بولتی جا رہی ہے جیسے اس نے تھوڑے سے سامان کا کہہ کر تیرے سر پر پہاڑ توڑ دیا ہو “-
آخر دھی دھیانی کی شادی ہے اتنا تو بنتا ہے، ، اور ویسے بھی ابا اتنا بھی ظالم نہیں کہہ مجھے کچھ بھی حصے کے طور پر نہ دے-“
رشید کی اپنی بھانجی کے لیے اندھی محبت اور ابا پر اندھا بھروسہ سکینہ کو ایک آنکھ نہ بھایا
“اچھا!!!چل تو چھوڑ ہر بات کو۔۔۔۔۔یہ بتا کہ میرے ساتھ جو ظلم تیری بڑی بھابھی نے کیا وہ میں بھول سکتی ہوں؟؟
سکینہ کی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں اور چہرے کے کرب نے رشید کو لاجواب کر دیا تھا
بیتے وقت کی تلخ یادوں نے سکینہ کو اشکبار کر دیا ان یادوں کی راکھ سے گویا چنگاریاں پھوٹنے لگیں اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب اس کی بہن حلیمہ رشید کے رشتے کی بات کرنے آئی تھی حلیمہ شہر میں جس جگہ رہتی تھی ساتھ ہی رشید کی بہن کا گھر تھا دونوں کا آپس میں کافی ملنا ملانا تھا اماں اور ابا سکینہ کی طرف سے بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ سب بچوں کی شادیاں وقت پر مناسب عمر میں ہو گئیں تھیں بس ایک سکینہ تھی جس کے مقدر ماٹھے تھے کوئی مناسب رشتہ ہی نہ مل رہا تھا
رشتہ داروں میں بھی کہیں بات نہ بن رہی تھی کہیں اماں کو اعتراض تھا تو کہیں ابا راضی نہ ہوتا سکینہ سب بہن بھائیوں میں چھوٹی تھی اور لاڈلی بھی
کہتے ہیں کہ تقدیر بھی اسی کو زیادہ آزماتی ہے جس نے بہت لاڈ اور ناز اٹھوائے ہوں یہی معاملہ سکینہ کے ساتھ تھا
اماں ابا اپنے محدود وسائل کے باوجود اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہر مسئلے میں اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی حلیمہ چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اس لئیے اس کی شادی سکینہ کے بچپن میں ہو گئی تھی بعد میں دونوں بھائیوں کی بھی شادیاں ہو گئیں اور وہ اپنے بیوی بچوں میں مصروف ہو گئے اب اماں ابا اور سکینہ تھے اور سکینہ کی شادی کی فکر ان کو ہر وقت لاحق تھی ایسے میں حلیمہ رشید کا رشتہ لائی تو جیسے ان کو اپنے فرض کی ادائیگی کا سہارا نظر آیا
رشید کے رشتے کی منظوری میں زیادہ دیر اس لئے نہ لگی کہ حلیمہ نے پہلے ہی ساری چھان بین کر رکھی تھی اماں ابا نے سکینہ سے پوچھا اس کو اپنی محبت کرنے والی بہن کی پسند پر بھلا کیوں اعتراض ہو سکتا تھا سکینہ کی ہاں کے بعد بھائیوں اور بھابھیوں کی رائے لی گئی اور سب کی متفقہ منظوری کے بعد رشید کے گھر والوں کو شادی کی تاریخ دے دی گئی اور پھر ٹھیک ایک ماہ بعد سکینہ رشید کی دلہن بن کر اس کے گھر آ گئی 
لڑکی جب نئی بیاہ کر سسرال جائے تو اس ماحول کو سمجھنے میں ٹائم لگتا ہے ایک بالکل نئی جگہ نئے لوگ اور سب سے بڑھ کر ایک بالکل اجنبی شخص جو شوہر بن کر تمام زندگی کا مالک بن بیٹھتا ہے ایسے میں لڑکی کی اپنی سمجھداری اور فراست ہی اس کو شادی شدہ زندگی میں کامیاب ہونے میں مدد دیتی ہے اور یہ دونوں خوبیاں سکینہ میں موجود تھیں
رشید کی ماں اس کے بچپن میں ہی وفات پا گئی تھی والد بھائی بہنیں سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے ایسے میں جہاں سکینہ نے اپنے سسر کی خوب خدمت کی وہیں جیٹھ جیٹھانی اور دیور دیورانی کو بھی اپنا بنانے کے لئے ان کی خدمت کی اس کی نندیں تو اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں کبھی کبھار آتیں سکینہ ان کی بھی جی جان سے خدمت کرتی
شادی کے کچھ دن بعد رشید اپنے کام پر شہر آ گیا سکینہ سسرال میں ہی رہی رشید کے شہر چلے جانے سے وہ کافی اداس رہتی تھی لیکن پھر خود کو کاموں میں مصروف کر لیتی
رشید کے جانے کے بعد کچھ ایسے واقعات ہونے لگے جن سے سکینہ کے اوپر سسرالی رشتوں کی اصلیت ظاہر ہونے لگی خاص طور پر بڑی جیٹھانی ساجدہ جو کہ اس کی نند کے وٹے میں بیاہی ہوئی تھی اس کا رویہ سکینہ کے ساتھ یک لخت بدل گیا تھا اوپر نیچے چند واقعات ایسے ہوتے جن سے ساجدہ کا اصل روپ اور سکینہ کے ساتھ حسد اور رقابت کھل کر سامنے آئے
ہوا یوں کہ ایک دفعہ سکینہ ہنڈیا بنا رہی تھی اتنے میں اسے سسر نے ایک گلاس پانی لانے کا کہا
“جی ابا جی ابھی لائی ” یہ کہتی سکینہ جلدی سے گلاس میں پانی ڈالنے لگی اور اسی میں وہ ہنڈیا کے نیچے آگ کم کرنا بھول گئی بس پھر کیا تھا سارا سالن جل گیا اور بالکل کھانے کے قابل نہ رہا
!!ارے بھابھی آپ بھی تو وہیں کھڑی تھیں دیگچی کو چولہے سے ہٹا دیتیں-“
اس نے دبے لفظوں میں جیٹھانی سے شکایت کی
!!!اے لو۔۔۔۔۔غلطی اپنی اور گلہ ہم پر۔۔۔۔یہ بھی خوب رہی۔۔۔۔بی بی اپنا کام خود دیکھا کرو میرے تو اپنے ہزاروں کام ہیں۔۔۔۔ساجدہ نے تلملاتے ہوتے جواب دیا اور پھر گھر کے سب افراد کو اطلاع ملی کہ سکینہ نے ہنڈیا راکھ کر دی
اس کے بعد تو جیسے ساجدہ ہر وقت سکینہ کو نیچا دکھانے کی تاک میں رہتی آئے روز سسر سے شکائتیں اور دیورانی کے ساتھ بیٹھ کر سکینہ کی برائیاں کرنا اس نے اپنا مشغلہ بنا لیا تھا
سکینہ بیچاری دل ہی دل میں اس کے رویے پہ کڑھتی لیکن کسی سے کچھ نہ کہتی رشید بھی آتا تو اس کو یہ سوچ کر کچھ نہ بتاتی کہ دو دن کےلئے تو آیا ہے اب کیا رونے دھونے لے کر بیٹھ جائوں
کچھ دن سے سکینہ کی طبیعت ناساز تھی متلی چکر اور جسم ٹوٹتا محسوس ہوتا اس نے اپنی بہن حلیمہ سے اس بات کا ذکر کیا حلیمہ کو اندازہ ہو گیاکہ سکینہ امید سے ہے
“-اچھا تم مکمل آرام کرنا اور رشید آئے تو اس کو کہنا کہ تمہیں شہر لے جا کر ڈاکٹر کو دکھا دے میں خود آتی لیکن آجکل مہمان آئے ہوئے ہیں اور گھر سے نکلنا مشکل ہے۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔سکینہ نے رشید سے ساری بات کی
۔۔۔۔کہتی تو باجی ٹھیک ہے لیکن ایسا ہے کہ مجھے ابھی چھٹی نہیں ملے گی میں بھابھی سے کہتا ہوں تمہیں ادھر ہی چیک کروا دے گی اس کی ماموں زاد بہن ایک لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتی ہے وہ تسلی سے سارا دیکھ لے گی
سیدھی سادھی سی سکینہ کو بھلا اس پر کیوں اعتراض ہوتا وہ تو بس اپنی طبیعت سے اتنی پریشان تھی کہ ساجدہ کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی
ادھر رشید نے اپنی بھابھی سے بات کی اور سکینہ کو چیک کروانے کا کہا ساجدہ ویسے کو ویسے تو سکینہ کا وجود بھی کھٹکتا تھا لیکن اس کام کےلئے فوری حامی بھر لی
دونوں طبی مرکز گئیں جہاں ساجدہ کی ماموں زاد کام کرتی تھی سلام دعا کے بعد سکینہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی اور ساجدہ نے ساری بات اپنی ماموں زاد سے کی
“-ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحبہ تو آج چھٹی پہ ہیں میں ان کی ہدایت پر یہ کام کر لیتی ہوں ویسے بھی جان ہے تو جہان ہے باقی باتیں تو بعد کی ہیں “-
سکینہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی اور سوچا کہ میری بہن تو اتنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی اور یہ کس انداز میں بات کر رہی ہے خیر ساجدہ بھابھی کون سا نا سمجھ ہے اس نے میری طبیعت کا بتایا ہو گا اسی لیے ایسا کہہ رہی ہے
وہ سکینہ کو سرجری والے کمرے میں لے گئی اور آدھے پونے گھنٹے بعد کچھ دوائیں دے کر بھیج دیا
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکینہ کی طبیعت میں بہتری کی بجائے اور خرابی آنے لگی شدید درد اور بخار نے اس کو نڈھال کر دیا تھا تکلیف تھی کہ جیسے جان لے کر ہی رہے گی جب برداشت جواب دے گئی تو اس نے اپنی بہن حلیمہ سے بات کی وہ بھی سخت پریشان ہو گئ اور رشید کو فون کرکے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا
“-ارے نہیں باجی آپ بے فکر رہیں میرے گھر والے سکینہ کا بہت خیال رکھ رہے ہیں جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی “-
رشید کے دلاسے پہ حلیمہ خاموش ہو گئی لیکن سکینہ کی طبیعت ٹھیک ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی آخر کار رشید اس کو شہر چیک کروانے لے آیا اس نے حلیمہ کو بھی بلا لیا جس کے مشورے سے ایک اچھی لیڈی ڈاکٹر کے پاس سکینہ کو لے جایا گیا
“-بی بی آپ کو کب سے یہ مسئلہ چل رہا ہے؟
لیڈی ڈاکٹر نے بنیادی معائنے کے بعد سکینہ سے پوچھا
سکینہ نے ساری صورتحال بتائی لیڈی ڈاکٹر کا چہرہ متفکر ہو گیا
“-ڈاکٹر صاحبہ کیا مسئلہ ہے میری بہن کے ساتھ؟
حلیمہ نے پریشان ہو کر کہا۔۔۔۔
“-ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتی کچھ ٹیسٹ لکھ کر دے رہی ہوں یہ کروا کر لائیں پھر دیکھتے ہیں “-
لیڈی ڈاکٹر نے پرچی لکھ کر حلیمہ کو تھما دی
رشید نے سکینہ کے ٹیسٹ کروائے اور دو دن بعد دوبارہ اس کو چیک اپ کےلئے لے جایا گیا
لیڈی ڈاکٹر نے بغور رپورٹس دیکھیں۔۔۔اپنا چشمہ اتارا اور سکینہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولی
“-بی بی آپ نے جو منصوبہ بندی کا طریقہ کار اپنایا اس سے آپ کی بچہ دانی میں بہت زیادہ انفیکشن پھیل گیا ہے آپ لگتا ہے امید سے تھیں لیکن جہاں آپ کو چیک کروایا گیا ان کو شائد اس بات کا علم نہیں ہو سکا۔۔۔۔کیا انہوں نے آپ کا ٹیسٹ نہیں کروایا تھا؟
سکینہ ہکا بکا رہ گئی
“-جی میری جیٹھانی میرے ساتھ تھی اور اس نے ساری بات بتائی تھی “”
“کیا وہ نہیں جان پائی کہ آپ حاملہ ہیں؟لیڈی ڈاکٹر نے حیرانی سے پوچھا
سکینہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی حلیمہ بھی یہ بات سن کر حواس باختہ ہو گئی
ان کے شوہر اگر ساتھ ہیں تو ان کو بلائیں۔۔۔۔لیڈی ڈاکٹر نے ملازمہ سے کہا
رشید کو بلا کر ساری صورتحال بتائی گئی وہ بھی سخت پریشان ہو گیا
“-خیر اب میں یہ دوائیں لکھ رہی ہوں ان کو استعمال کروائیں لیکن یہ انفیکشن بہت زیادہ ہے اور بچہ دانی بری طرح متاثر ہوئی ہے لہذا کوئی ناغہ نہیں ہونا چاہئے اس کے بعد ان کی بچہ دانی کی صفائی ہو گی
سکینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
رشید اور حلیمہ دلاسے دیتے ہوئے بمشکل اس کو گھر لائے وہ کسی طرح بھی اپنے سسرال جانے کو تیار نہ تھی رشید نے اس کو حلیمہ کے گھر چھوڑا تاکہ دوائیں با قاعدگی سے لے سکے اور دوبارہ بھی تو چیک اپ کروانا تھا اور خود گاؤں چلا گیا
قصہ مختصر تمام چھان بین اور پوچھ گچھ سے جو صورتحال سامنے آئی وہ دل دہلا دینے والی تھی سکینہ کی جیٹھانی نے اپنی ماموں زاد کو کہا تھا کہ میری دیورانی منصوبہ بندی کروانا چاہتی ہے اس نے لیڈی ڈاکٹر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند پیسوں کے عوض سکینہ غریب کی دنیا اجاڑ دی اور اس کی کھوکھ آباد نہ ہو سکی
رشید نے خوب لڑائی جھگڑا کیا اور اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ شکوے شکائتیں بھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا
سکینہ کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی بیچاری کی زندگی میں اتنا بھونچال آ گیا اس کی تو دنیا لٹ گئی تھی جس بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے کے سپنے آنکھوں میں سجا رہی تھی وہ دنیا میں ہی نہ آ سکا تھا
رشید نے اس کو سسرال میں نہ رہنے دیا اور شہر میں ایک چھوٹا سا مکان لے کر اپنے ساتھ ہی لے آیا اس نے سکینہ کا بہت علاج کروایا لیکن سکینہ کی گود ہری نہ ہو سکی
“-سکینہ میں تمہارے دکھ میں برابر کا شریک ہوں۔۔۔میں شائد تمہارا مجرم بھی ہوں جو اپنے گھر والوں پہ اندھا اعتبار کر کے تمہیں اکیلا چھوڑ کر آ گیا۔۔۔۔۔مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میری بھابھی اتنی سفاک ہو سکتی ہے کہ حسد اور جلن میں اتنی آگے چلی جائے گی۔۔۔۔بہرحال یہ میرا تم سے وعدہ ہے کہ اولاد ہو یا نہ ہو میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا “-
اس نے سکینہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی دی لیکن سکینہ کو کسی پل قرار نہ تھا “”آخر میرا قصور کیا تھا۔۔۔۔تمہاری بھابھی نے مجھے کس بات کی سزا دی؟؟
وہ روتی، ،چلاتی رشید سے جھگڑتی لیکن اس سب کا کوئی حاصل نہ تھا اس کی زخمی روح پر کوئی پھاہا رکھتا بھی تو کیا “-
اس کی جیٹھانی کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا کیونکہ وٹے کی شادی تھی اور ابا سکینہ کی خاطر اپنی بیٹی کے گھر کا سکون کیونکر خراب ہونے دیتا
بے بس سکینہ نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا اور صبر کا گھونٹ پی لیا اس کی اور رشید کی زندگی اب شہر تک محدود ہو گئی اس نے خود کو مصروف رکھنے اور زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے لیے رشید کو ارد گرد کے چند گھروں میں کام کرنے پر آمادہ کر لیا وہ اب پہلے والی سیدھی سادھی سکینہ نہ رہی تھی اس ٹھوکر نے اس کو ایسا سبق سیکھا دیا تھا کہ وہ اب پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی نہ چاہتی تھی
وقت گزرنے کے ساتھ بڑے سے بڑا زخم بھی بھر جاتا ہے رشید بھی اب اپنے ابا اور بھائیوں بہنوں سے رابطہ کرنے لگا تھا
کہتے ہیں کہ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جو بویا جائے وہ ایک دن کاٹنا پڑتا ہے ایسے ہی ایک دن اطلاع ملی کہ سکینہ کی جیٹھانی کا اکلوتا بیٹا ایکسیڈنٹ میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گیا رشید کو معلوم ہوا تو وہ بھاگا گیا لیکن سکینہ کا دل تو ایسے پتھر ہوا کہ اسے کسی بھی طرح کا کوئی دکھ موم نہ کر سکا اس کے دل میں بھڑکتی نفرت کی آگ کو جیٹھ جیٹھانی کی معافیاں تلافیاں بھی کم نہ کر سکیں
اور آج جب رشید نے بھانجی کی شادی کی بات کی اور جیسے اپنوں کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اسے دیکھ کر گزرے وقت کا ایک ایک لمحہ سکینہ کو یاد آ گیا درد کی شدت جوں کی توں تھی لیکن اجڑی کھوکھ تو اس کا مقدر بن گئی تھی
“-

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button