اقتباس

از “بابا صاحبا

بابا جی نے بتایا کہ اگلے وقتوں میں لوگ گدائی کر کے اور اپنے علاقے کے گھروں پر جا کر ، صدا لگا کر رسد اکٹھی کر کے لاتے تھے اور لنگر میں شامل کرتے تھے –

ان میں ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے –

معزز سردار ، تعلقدار ، سرکاری ملازم ، مزدور ، منشی ، مقدی ، مدرسی ، پیشہ ور –

گدائی کرنے سے ان کے تکبر میں کمی آتی تھی – اور وہ ابلیس کی جماعت سے نکل کر سجدہ کرنے والوں کے ” جیش ” ٹولے میں شامل ہو جاتے تھے –

اب بھی لوگ خواجہ اجمیری کی درگاہ پر بڑی دیگ میں رسد ڈالنے کے لیے گھروں سے سودے لے کر آتے ہیں –

ایک روز بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں گدائی کر کے کچھ رسد لے کر ڈیرے پر جاؤنگا – اور لنگر میں شامل کرونگا تاکہ پرانی رسم کا اعادہ ہو –
گھر کے پھاٹک سے باہر نکل کر جب میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میرا حوصلہ نہ پڑا –

میں اتنا بڑا آدمی ایک معزز اور مشہور ادیب کس طرح کسی کے گھر کی گھنٹی بجا کر یہ کہ سکتا ہوں کہ میں مانگنے آیا ہوں – میں چپ چاپ واپس آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا –

لیکن چونکہ یہ خیال میرے ذہن میں جاگزیں ہو چکا تھا اس لیے میں پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا !

مجھے الله کے نام پر کچھ خیرات دو گی “

وہ میری بات نہ سمجھی اور حیرانی سے میرا چہرہ تکنے لگی –

میں نے کہا مجھے الله کے نام پر کچھ آٹا خیرات دو –

اس نے تعجب سے پوچھا تو میں نے کہا بابا جی کے لنگر میں ڈالنا ہے –

کہنے لگی ٹھہرئیے میں کوئی مضبوط سا شاپر تلاش کرتی ہوں – میں نے کہا شاپر نہیں میری جھولی میں ڈال دو – کیونکہ ایسے ہی مانگا جاتا ہے – وہ پھر نہیں سمجھی –

جب میں نے ضد کی تو وہ آٹے کا ایک بڑا پیالہ بھر لائی میں نے اپنے کرتے کی جھولی اس کے آگے کر دی –

اس نے آٹا میری جھولی میں ڈالتے ہوئے سر جھکا لیا اور آبدیدہ ہو گئی – پھر وہ مجھ سے نظریں ملائے بغیر واپس باورچی خانے میں چلی گئی –

وہاں سے دو بڑے بینگن اور چھوٹا سا کدو لے کر کر آئے اور انھیں آٹے پر رکھ دیا –

ہم دونوں کے شرمندہ شرمندہ اور غمناک چہروں کو ہمارا چھوٹا بیٹا دیکھ رہا تھا –

اس کے ہاتھ میں اس کا محبوب لیمن ڈراپ تھا – اور وہ اس سے چپکا ہوا کاغذ اتار رہا تھا جب اس نے باپ کو جھولی پھیلائے دیکھا تو اس نے اپنا لیمن ڈراپ میری جھولی میں ڈال دیا –

ہم دونوں میاں بیوی کے ایک ساتھ چیخ نکل گئی –

جب کوئی گدائے کرتا ہے تو بھکاری اور داتا کے درمیان ایک نہ سنائی دینے والی چیخ ضرور ابھرتی ہے –

بھکاری اپنی دریوزہ گری پر پشیمان ہوتا ہے اور داتا اپنی بے حقیقتی اور نا شدنی پر شرمندہ ہوتا ہے –

میں کھلی جھولی میں آٹا ڈالے آھستہ آھستہ کار چلاتا ڈیرے پر پہنچ گیا
بابا جی کھڑے تھے میری جھولی دیکھ کر زور کا نعرہ لگایا

رحمتاں برکتاں والے آ گئے – نور والے آگئے – منگتے آگئے منگتے آگئے – “

از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button