اقتباس

“از مستنصر حسین تارڑ۔۔۔۔

بڑے شاعر اور ادیب کنوارے کیوں مر گئے؟ (مستنصر حسین تارڑ کی ایک زندہ تحریر)

پچھلے دنوں میرے دوست مشتاق صوفی نے، اور وہ عجیب سے صوفی ہیں، انہوں نے ایک انکشاف کیا کہ جتنے بھی بڑے صوفی شعرا ہو گزرے ہیں ان میں سے بیشتر غیر منکوحہ رہے، انہوں نے عمر بھر شادی نہ کی۔

بے شک وارث شاہ اپنی بھاگ بھری کے عشق میں مبتلا رہے لیکن ایک مجرد زندگی گزار دی۔ نہ ہی بلھے شاہ نے شادی کی اور نہ ہی شاہ حسین نے۔ یہاں تک کہ میاں محمد بخش بھی کنوارے ہی رہے۔ تو کیا ان کی عظیم شاعری صرف اس لیے وجود میں آئی کہ وہ کبھی شادی کے بندھن میں نہ بندھے۔

اب میں اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتا ہوں کہ انہوں نے عمر بھر عورت کی قربت سے، ایک بیوی کی رفاقت سے کیوں گریز کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ دنیاوی رشتوں سے ماورا ہو کر اس ایک عشق میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے بعد کسی انسانی عشق کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ وہ انسانی رشتوں سے اس لیے گریز کرتے تھے کہ وہ معاشرے کے بندھنوں سے بندھ کر محدود ہو سکتے تھے وہ لامحدود کی جستجو میں تھے۔ اگرچہ یہ کوئی حتمی کلیہ تو نہیں ہے، بہت سے بڑے تخلیق کار شادی شدہ تھے اور اس کے باوجود انہوں نے بڑی شاعری اور عظیم ادب تخلیق کیا لیکن ذرا دیکھئے کہ۔ نہ ہمیں عظیم شاعر ہومر اور نہ ہی شیکسپیئر کی بیوی کا سراغ ملتا ہے۔ غالب اگرچہ شادی شدہ تھے ان کی اہلیہ نے ان پر کیسے کیسے ستم ڈھائے، ٹالسٹائی اپنی بیوی سے فرار ہو کر کسی نامعلوم ریلوے سٹیشن پر جا کر مر گیا۔ دوستووسکی کے بارے میں بھی کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کے شادی شدہ ہونے کا کہیں تذکرہ نہیں۔ لارڈ بائرن تو ویسے ہی ایک کھلنڈرا شخص تھا، میر تقی میر کے بارے میں بس کوئی تحقیق کرے کہ کیا وہ اسی عطار کے لونڈے سے ہی دوا لیتے تھے یا کبھی منکوحہ بھی ہو گئے۔ اپنے شیخ سعدی نے بھی ”بوستان“ میں نہایت حسین لونڈوں کا تذکرہ کیا ہے، کیا کسی کو معلوم ہے کہ انہوں نے کبھی شادی بھی کی۔ عمر خیام بھی اگرچہ رنگ رنگیلے تھے لیکن ان کی بیگم کا بھی سراغ نہیں ملتا۔

چند برس پیشتر نیویارک سے کچھ فاصلے پر ٹیری ٹاؤن قصبے میں مشہور امریکی مصنف ارونگ واشنگٹن کا پرانا گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا جو دریائے ہڈسن کے کنارے واقع ہے۔ مجھے ارونگ سے لگاؤ اس لیے تھا کہ اس نے ”الحمرا کی کہانیاں“ نام کی کتاب لکھی جس نے یورپ بھر کو احساس دلایا کہ اندلس کے شہر غرناتا کی ایک پہاڑی پر مسلمانوں کے تعمیر کردہ ایک شاہکار قصر کے کھنڈر بکھرے پڑے ہیں اور اس عجوبے کو فنا نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے بحال کر کے اس کی عظمت کو محفوظ کر لیا گیا۔ ارونگ ایک امریکی سفارت کار کی حیثیت سے غرناتا تعینات ہوا اور اس نے الحمرا کے اجڑے ہوئےقصر میں قیام کے دوران 1829 ء میں ”الحمرا کی کہانیاں“ اپنے تصور کے کرشمے سے تخلیق کیں۔ ”میں نے ٹیری ٹاؤن کے قبرستان سیپسی ہالو میں اس کی قبر بھی دیکھی اور اس کا پرانا مکان بھی دیکھا اور وہاں گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ واشنگٹن ارونگ نے بھی کبھی شادی نہ کی اور اس کی بھتیجیاں اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔

اب یہ محققین کا کام ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے آخر شادی سے کیوں گریز کیا۔ تمام عمر تنہائی میں کیوں بسر کی۔ شاید میں آج تک بڑا مصنف نہیں بن سکا کہ میری تو شادی ہو گئی تھی بلکہ کسی حد تک کر دی گئی تھی۔😄
منقول

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button