اقتباس

از مستنصر حسین تارڑ

مجھے یاد ہے جب مدرر تھریسا کو جائز طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا تو میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایدھی اُن کی نسبت زیادہ بڑے انسان ہیں کہ مدر تھریسا کی خدمت میں بہرطور ایک خواہش کار فرما ہے کہ جس کی خدمت کی جا رہی ہے وہ اُن کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر عیسائی ہو جائے جب کہ ایدھی صاحب صرف اور صرف انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں، اُن کے اندر کسی انسان کے عقیدے کو بدل ڈالنے کا لالچ نہیں ہے۔ میرے ایک واقف کار ایک روز ایدھی صاحب کو بہت برا بھلا کہہ رہے تھے، شدید غصے میں تھے، کہنے لگے، تارڑ بھائی، بیٹی کی شادی کے سلسلے میں میری بیگم لبرٹی مارکیٹ سے کچھ زیور فرید نے کے لیے گئی۔۔۔ اور وہاں فٹ ہاتھ پر وہ کمبخت بابا ایدھی جھولی پھیلائے بیٹھا تھا، بیگم نے زیورات کی ساری رقم اُس کی جھولی میں ڈال دی اور خوش خوش گھر آ گئی۔ اُس سے اگلے روز میں خود لبرٹی مارکیٹ گیا زیورات خریدنے کے لیے اور وہ ناہنجار بابا وہیں بیٹھا، فٹ پاتھ پر جھولی پھیلائے بھیک مانگ رہا تھا۔ میں نے بے اختیار ساری رقم اُس کی جھولی میں ڈال دی۔ تارڑ صاحب۔۔۔ یہ بابا ہمیں برباد کر دے گا۔ اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ کسی بہت بڑے اخبار کی جانب سے ملک کی چند شخصیتوں کو ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ دینے کا اعلان ہوا اور بدقسمتی سے اُن میں میرا نام بھی شامل تھا۔۔۔ چونکہ میں ان انعامی شعبدوں پر یقین نہیں رکھتا چنانچہ میں نے معذرت کر لی اور تب مجھے بتایا گیا کہ یہ ایوارڈ ایدھی صاحب پیش کریں گے تو میں سر کے بل گیا اور سٹیج پر جا کر ایدھی صاحب سے کہا کہ بابا جی، اگر آپ اس ایوارڈ کی بجائے مٹھی بھر مٹی میرے چہرے پر بکھیر دیتے تو بھی یہ ایک اعزاز ہوتا۔

مستنصر حسین تارڑ کے کالم سے اقتباس۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button