مزاح کے رنگ

از مشتاق احمد یوسفی

مرزا کو ہم نے یہ واقعہ سنایا تو کہنے لگے تم طنز و مزاح لکھتے ہو بنیادی طور پر تمہارا کام معین اختر کی طرح ہنسنا ہنسانا ہی تو ہے، کیا تمہیں کبھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ معین اختر کی طرح تم بھی لاکھوں کے دلوں میں گھر کرو۔ میں نے کہا صاحب میں پچھلے چالیس پچاس برسوں سے اپنی گھر والی کے دل میں گھر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس سے فارغ ہو جاؤں تو لاکھوں کی باری آئے، فی الوقت میری حیثیت گھس بیٹھیئے کی سی ہے جس کو بیوی ہی نہیں باجپائی صاحب بھی نہیں نکال سکتے۔ ادھر ہماری نیک بخت بیگم پروین شاکر کی طرح یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتیں کہ وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا۔۔۔بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی۔صاحبو! ہمارے کیس میں لوٹنے کا سوال تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا اس لئے کہ ہم گھر سے باہر نکلنے کے لئے کوئی ڈھنگ کا ٹوہ ٹھکانہ دریافت ہی نہیں کر پائے۔ہمیں حیرت ہے کہ پروین شاکر جیسی حساس اور حوصلہ مند خاتون نے یہ بات اتنے فخر سے کیسے کہی۔اس لئے کہ اس ہرجائی کا لوٹ کے گھر آنا گھر والی کی ازدواجی کشش کا کرشمہ یا یا ہرجائی کی شوہرانہ وفاداری کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے بلکہ اس بدمعاش کی رہائشی مجبوری ہے۔

مشتاق احمد یوسفی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button