اقتباس

اقتباس از ‘ منہ ول کعبہ شریف،،

خیموں کے درمیان میں جہاں کچھ سایہ دار شجر دھریک یا نیم کی قسم کے تھے۔ وہاں ایک درخت کے تنے سے لپٹا ہوا اپنے ناتواں بازوؤں سے اس تنے سے چمٹا ہوا ایک لاہوری حاجی بابا ہے اور یوں چمٹا ہوا ہے کہ الگ ہونے کا نام نہیں لیتا اور بھوں بھوں کرتا ۔۔۔۔ روتا چلا جاتا ہے۔اس کی سفید داڑھی میں اس کے آنسوؤں کی مسلسل دھاریں جذب ہوتی چلی جا رہی ہیں ہر بار جب آنکھیں جھپکتا ہے کہ اماں میں نے سکول نہیں جانا۔۔۔اپنے دادا کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا ہے ۔۔۔۔فریاد کرتا ہے کہ اماں میں نے سکول نہیں جانا ۔
اور اس کی اماں کون ہے۔
ایک نہیں تین ہیں۔
اس کے گرد اس کے تین اسی عمر کے تین بابے یار ہیں اور اسے دلاسے دیتے ہیں ۔اور کیسے دلاسے دیتے ہیں۔
،،اوئے ۔۔ڈرتا کیوں ہے ۔وہ تو ہمارا یار ہے ۔دلدار ہے ہمت تو کر وہ کچھ نہیں کہے گا کیوں اس نے خود تمیں بلایا ہے۔ نہ خوف کھا اس سے مانگ لے جو کچھ مانگنا ہے ۔دھتکارے گا نہیں ۔۔۔اوئے وہ تو مومن کا دوست ہے۔۔۔۔نہیں ڈر یار۔۔۔وہ تو ہمارا جگر ہے،،
اور وہ لاہوری بابا کانپتا ہے۔ اس کا پورا بدن ایک ناتواں گھاس کے تنکے کی مانند آندھی کی زد میں آیا کانپتا ہے اور اس دھریک کے تنے کے ساتھ مزید لپٹا جاتا ہے۔اور اس کی چھال کو اپنے آنسوؤں سے گیلا کرتا چلا جاتا ہے۔
ایک اور ساتھی اسے ڈھارس دیتا ہے۔ ،،اوئے دھریک کے اس تنے کو چھوڑ یار ۔اسے جپھا نہ مار اسے مار جس نے تمیں بلایا ہے تو خود سے تو نہیں آیا ناں۔ تو پھر کیوں ڈرتا ہے یار وہ تمیں کچھ نہیں کہے گا۔،،
اور لاہوری بابا جی ہیں کہ ان پر ان ڈھارسوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور دھریک سے چمٹے ۔۔ تنے سے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کرتے بھوں بھوں روئے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے ایک بے خود اور جذب میں آئے ہوئے شخص کا تماشہ تو نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر۔ میں اس کی بے خودی کو سمجھ نہیں سکتا تھا تو مجھے وہاں کھڑے ہونے کا کیا حق تھا محض ایک تماشائی کے طور پر۔۔۔
لیکن یہ دنیا بھی تو ایک کھیل تماشا ہے۔
تو اس میں کیا ہرج تھا کہ میں بھی ایک تماشائی ہو جاتا۔
،،بابے کو کوا کیا ہے؟میں نے اس کے تین یاروں میں سے ایک کو پوچھا۔۔
،،ڈر گیا ے،،اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا،،کہتا ہے اس نے مجھے نہیں بخشا ۔۔میں بہت کالا ہوں ۔۔اس نے مجھے سفید نہیں کرنا ۔۔۔کالک بہت ہے۔۔۔تو اس دھریک کے تنے کے ساتھ جپھا مارے کانپتا جاتا ہے۔ روتا جاتا ہے اور کہتا ہے میں کیسے دعا مانگ سکتا ہوں۔۔میں دعا نہیں مانگ سکتا،،
میں نے ایک سانس لیا اور جب اگلے سانس میں مین نے یہ جواز سنا تو ایک شاطر اور الگ ہو کر صرف مشاہدہ کرنے والے ادیب اور ڈرامہ نگار کے وجود کو خالی کر گیا۔ میں نے خود نہیں اس جواز نے مجھے خالی کیا کہ میں بہت کالا ہوں اور اس لاہوری بابے کے وجود میں ڈھل گیا اور اسی کے بدن کی مانند میرا بدن بھی کانپنے لگا۔میں بھی ڈر گیا۔
اقتباس۔منہ ول کعبے شریف
مستنصر حسین تارڑ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button