مضامین

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ

اقراء ۔۔۔۔ “پڑھیے”
کا پہلا پیغام جب آسمان سے فرشتوں کا سردار جبرائیل نبیوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لے کر اترے تو ان دیکھی ان جانی ناگہانی سی کیفیت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا۔ آپ ڈر گئے ، خوفزدہ ہوئے ، غار حرا کو چھوڑ کر گھر کی طرف نکلے ۔

کیونکہ گھر میں وہ تھیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ڈھارس بندھائی ، حوصلے بڑھائے، مضبوط کیا ، ساتھ کھڑی ہوئیں، مال جان سب قربان کیا۔ جنہوں نے اسلام کی بنیادوں میں اپنی ہر متاع کو لٹا کر رنگ بھرا ۔

میں سوچتا ہوں کہ ابوبکر کے نصیب کے کیا کہنے ان کو حوصلہ دینے کے لیے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا گیا فکر مت کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔مگر یہاں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نصیب کہ وہ اس حوصلے بانٹنے والی ہستی کو کہا کرتی تھیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ فکر مت کریں اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔

گھر داخل ہوئے ۔ ہائے میں قربان جاوں اماں خدیجہ پہ ، ہمدرد ہو تو ان جیسا ، ہمسفر ہو تو آپ جیسا ، ہمنوا ہو تو ایسا ہو ،

ذرا تصور کیجیے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے آئے گھر داخل ہوئے ۔ اس مشکل گھڑی میں آواز دی تو کس کو دی ۔۔
خدیجہ ، یا خدیجہ ۔۔۔
خدیجہ آپ کے نصیبے کے کیا کہنے ۔ رضی اللہ عنہا
خدیجہ نے کہا۔۔۔۔نعم یا محمد
جی سر تاج کہیے کیا بات ہے کیوں اس قدر پریشان ہیں۔ کیوں گھبرائے ہوئے ہیں۔ کس نے کچھ کہہ دیا جو یہ حالت ہو گئی ۔

سرتاج رسل صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے
خدیجہ مجھے چادر اوڑھ دیجیے ۔ مجھے چادر اوڑھ دیجیے ۔ مجھے چھپا لیجیے ۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فورا بستر مہیا کیا چادر ڈالی آپ لیٹ گئے ۔
جانتے ہیں یہ چادر کون سی تھی وہی جس کا قرآن نے تذکرہ کیا کہ
یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)قُمْ فَاَنْذِرْ(۲)
اے چادر اوڑھنے والے کھڑے ہوجائیں ۔۔۔

آپ لیٹ گئے ۔ امان خدیجہ پاس بیٹھ گئے
خدیجہ متحمل بردبار معاملہ فہم خاتون تھیں رضی اللہ عنہ وہ سمجھتی تھیں کہ اب کیا کرنا ہے کیسے سنبھالنا ہے ۔ کیسے حوصلہ دینا ہے ۔ کیسے اس کیفیت سے نکالنا ہے ۔ ۔۔

اماں خدیجہ کہنے لگے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آپ کو بشارت ہو آپ ہرگز نہ ڈرئیے۔ خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ آپ کی صلہ رحمی بالکل محقق ہے۔ ہمیشہ آپ سچ بولتے ہیں لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں یعنی دوسروں کے قرضے اپنے سر رکھتے ہیں اور ناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں ۔امین ہیں لوگوں کی امانتیں ادا کرتے ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کا حق ادا کرتے ہیں۔ حق بجانب امور میں آپ ہمیشہ معین اور مددگار رہتے ہیں ۔

اماں پاس بیٹھیں ہمت بندھا رہی تھیں عرش والا بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت انداز میں دلجوئی پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا ہو گا ۔

پھر یہ ہمت و حوصلے کے سلسلے تا حیات چلتے ہی رہے جب تبلیغ شروع کی تکالیف اور ستم کا سامنا ہوا ظلم ہوتا پتھر پڑتے آپ لہولہان گھر آتے تو اماں نہ صرف زخموں کو صاف کرتیں، پٹی باندھتی ، بلکہ ارادوں کو متزلزل ہونے سے بچانے کے لیے مسلسل ہمت بندھاتیں ۔

اس قدر خوبصورت لاجواب بے مثال رفاقت نبھائی ، اپنا آپ قربان کیا کہ جب آپ نبوت کے دسویں سال 10 رمضان المبارک کو وفات پا گئیں

آپ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غمزدہ ہوئے کہ اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انکی یاد میں اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ۔

قَدْ آمَنَتْ بِى إِذْ كَفَرَ بِى النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِى إِذْ كَذَّبَنِى النَّاسُ۔

ترجمہ:(خدیجہؓ)وہ ہیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میراانکار کررہے تھے، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے۔
(مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر:25606)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button