اقتباس

ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں

محترم اشفاق احمد صاحب اپنی کتاب زاویہ میں لکھتے ہیں

“میں جس زمانے میں روم میں لیکچرار تھا، روم یونیورسٹی میں، اور میں سب سے youngest پروفیسر تھا یونیورسٹیوں میں چھٹیاں تھیں گرمیوں کا زمانہ تھا دوپہر کے وقت ریڈیو سٹیشن پر مجھے اردو براڈ کاسٹنگ کرنی پڑتی تھی لوٹ کے آ رہا تھا تو خواتین و حضرات روم میں دوپہر کے وقت سب لوگ قیلولہ کرتے تھے 4 بجے تک سو جاتے تھے اور روم کی سڑکیں تقریبا خالی ہوتی تھیں اور کارپوریشن نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ وہ وہاں پر پانی کے حوض لگا کر سڑکیں دھوتے ہیں اور شام تک سڑکیں ٹھنڈی بھی ہو جاتی ہیں خوشگوار بھی ہو جاتی ہیں صاف بھی ہو جاتی ہیں تو وہ سڑکوں کو دھو رہے تھے اکا دکا کوئی ٹریفک کی سواری آ جا رہی تھی تو میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا اب دیکھیے انسان کے ساتھ ساتھ ایک دیسی مزاج چلتا ہے آدمی کہیں بھی چلا جائے تو میں گاڑی چلا رہا تھا میں نے دیکھا کہ گول دائرہ ہے اس کے اوپر سے میں چکر کاٹ کے آئوں گا پھر میں اپنے گھر کی طرف مڑوں گا تو یہ بڑی بیہودہ بات ہے بیچ میں سے چلتے ہیں اس وقت کون دیکھتا ہے دوپہر کا وقت ہے

تو میں بیچ میں سے گزرا وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا اس نے مجھے دیکھا اور اس نے پرواہ نہیں کی جانے دیا کہ یہ جا رہا ہے یہ نوجوان تو کوئی بات نہیں جب میں نے دیکھا شیشے میں سے گردن گھما کے کچھ مجھے تھوڑا یاد پڑتا ہے میں طنزا” مسکرایا کچھ اپنی fate کے اوپر کچھ اپنی کامیابی کے اوپر۔۔۔۔میں نے خوشی منانے کے لئے ایک مسکراہٹ کا پھول اس کی طرف پھینکا۔۔جب اس نے یہ دیکھا کہ اس نے میری یہ عزت کی ہے تو اس نے سیٹی بجا کے روک لیا۔۔۔اب وہاں پر سیٹی بجنا موت کے برابر تھی اور رکنا بھی۔۔۔میں رکا، وہ آ گیا۔۔پہلے سیلوٹ کیا، ولایت میں رواج ہے کہ جب بھی آپ کا چالان کرتے ہیں۔۔آپ کو پکڑنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے آ کر سیلوٹ مارتے ہیں، تو اس نے کھڑے ہوکر سیلوٹ مارا اب میں اندر تھر تھر کانپ رہا ہوں۔شیشہ میں نے نیچے کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ کا لائسنس، ،،تو میں نے اس سے کہا کہ میں زبان نہیں جانتا۔۔اس نے کہا چنگی بھلی بول رہے ہو، ،میں نے کہا میں نہیں جانتا تم ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہو۔۔میں تو نہیں جانتا ہوں

اس نے کہا، نہیں آپ اپنا لائسنس دیں۔تو میں نے کہا فرض کریں کسی کے پاس اپنا لائسنس نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے۔اس نے کہا کوئی بات نہیں۔میں آپ کا چالان کر دیتا ہوں۔پرچی پھاڑ کے تو یہ آپ لے جائیں اور جرمانہ جمع کروا دیں۔میں تو ایسے ہی مانگ رہا تھا

میں نے کہا مجھ سے غلطی ہو گئی۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا، غلطی ہو گئی تھی تو چلے جاتے۔۔اس نے بغیر مجھ سے پوچھے کاپی نکالی اور چالان کر دیا، ،اور چالان بھی بڑا سخت، ،بارہ آنے جرمانہ۔۔میں نے لے لی پرچی۔۔میں نے کہا میں اس کو لے کر کیا کروں۔۔اس نے کہا اپنے کسی بھی قریبی ڈاکخانے میں منی آرڈر کی کھڑکی پر جمع کروا دیں۔۔بس وہاں کچہری نہیں جانا پڑتا، ،دھکے نہیں کھانے پڑتے۔۔بس آپ کا جرمانہ ہو گیا ،آپ ڈاکخانے میں دیں گے تو بس

میں جب چالان کروا کے گھر آیا تو میں نے اپنی لینڈ لیڈی سے کہا، میرا چالان ہو گیا ہے۔کہنے لگی، آپ کا؟؟میں نے کہا، میں کیا کروں۔۔اب ان کو ایسے لگا کہ ہمارے گھر میں جیسے ایک مجرم رہتا ہے اور اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ پروفیسر کا چالان ہو گیا ہے۔۔بڈھی مائی تھی۔ان کی ایک ساس تھی اس کو بھی بتایا

سارے روتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔۔میں بڑا ڈرا کہ یا اللہ یہ کیا؟؟کہنے لگے تو شریف آدمی لگتا تھا۔اچھے خاندان کا، اچھے گھر کا لگتا تھا۔ہم نے تجھے یہ کرائے پر کمرہ بھی دیا ہوا ہے لیکن تو ویسا نہیں نکلا خیر گھر خالی کرنے کو تو نہیں کہا۔۔جو بڈھی مائی تھی، ان کی ساس، اس نے کہا

“ہو تو گیا ہے برخوردار چالان۔۔لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا۔۔محلے داری کا معاملہ ہے اگر ان کو پتا چل گیا کہ اس کا چالان ہو گیا ہے تو بڑی رسوائی ہو گی “-

میں نے کہا۔نہیں میں پتا نہیں لگنے دوں گا، میری لاابالی طبیعت، ،26 سال کی عمر تھی، چالان جیب میں ڈالا اور نکل گیا دوستوں سے ملنے۔۔اگلے دن مجھے جمع کروانا تھا، بھول گیا، پھر سارا دن گزر گیا، اس سے اگلے دن مجھے اصولا” جمع کروا دینا چاہیے تھا تو میں نے کپڑے بدلے تو اس پرانے کوٹ میں رہ گیا۔۔شام کے وقت مجھے ایک تار ملا کہ محترم جناب پروفیسر صاحب فلاں فلاں مقام پر، فلاں فلاں چوراہے پر آپ کا چالان کر دیا گیا تھا فلاں سپاہی نے، یہ نمبر ہے آپ کے چالان کا۔۔آپ نے ابھی تک کہیں بھی چالان کے پیسے جمع نہیں کرواتے یہ بڑی حکم عدولی ہے۔مہربانی فرما کر اسے جمع کروا دیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔تقریبا 21 روپے کا تار تھا۔میں نے سارے لفظ گنے۔مجھ سے کوتاہی ہوئی میں پھر بھول گیا، ،ان کا پھر ایک تار آ گیا۔۔اگر آپ اب بھی یہ رقم جمع نہیں کروایں گے تو پھر ہمیں افسوس ہے کہ کورٹ میں پیش کر دینا پڑے گا

مجھ سے کوتاہی ہوئی، نہیں جا سکا تب مجھے کورٹ سے ایک سمن آ گیا کہ فلاں تاریخ کو عدالت میں پیش ہو جائیں اور یہ جو آپ نے حکم عدولی کی ہے، قانون توڑا ہے اس کے بارے میں آپ سے پورا انصاف کیا جائے گا۔۔ان کی بولی، چونکہ رومن لاء وہیں سے چلا ہے تو بڑی تفصیل کے ساتھ۔۔۔اب میں ڈرا، میری سٹی گم ہوئی، ،پریشان ہوا کہ اب میں دیار غیر میں ہوں کوئی میرا مدد گار نہیں ہے میں کس کو اپنا والی بنائوں گا۔۔۔میرا ڈاکٹر تھا۔۔۔ڈاکٹر بالدی اس کا نام تھا، ،میں نے اس سے کہا، مجھے وکیل کر دو اس نے کہا میرا ایک دوست ہے اس کے پاس چلتے ہیں۔۔اس کے پاس گئے۔۔اس نے کہا، یہ تھوڑا سا پیچیدہ ہو جائے گا۔۔اگر میں گیا عدالت میں، ،بہتر یہ ہے پروفیسر صاحب جائیں اور جا کر خود face کریں، ،عدالت کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ میں چونکہ اس قانون کو ٹھیک طرح سے نہیں جانتا تھا میں یہاں پر غیر ملکی ہوں تو مجھے معافی دی جائے میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا

میں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ میں ڈرتا ڈرتا چلا گیا اگر آپ کو روم جانے کا اتفاق ہو پالاس آف دی جستی ” (place of justice) وہ رومن زمانے کا بہت بڑا وسیع و عریض ہے اسے تلاش کرتے کرتے ہم اپنے جج صاحب کے کمرے میں جا پہنچے تو وہ وہاں تشریف فرما تھے مجھے ترتیب کے ساتھ بلایا گیا تو میں چلا گیا، ،اب بالکل میرے بدن میں روح نہیں ہے، اور میں خوفزدہ ہوں اور کانپنے کی بھی مجھ میں جرات نہیں۔اس لیے کہ تشنج جیسی کیفیت ہو گئی تھی انہوں نے حکم دیا۔۔۔

آپ کھڑے ہوں اس کٹہرے کے اندر، ،،اب عدالت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا چالان ہوا تھا اور آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ یہ بارہ آنے ڈاک خانے میں جمع کروائیں، کیوں نہیں کروائے؟

میں نے کہا۔۔۔جی مجھ سے کوتاہی ہوئی، مجھے کروانے چاہئیں تھے لیکن میں۔۔۔۔

اس نے کہا، ،کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا، ،کتنا پولیس کا ہوا، ،اب کتنا، ،جستیک، ،کا ہوا، ،اور آپ کو اس کا احساس ہونا چاہئے تھا۔اب ہم اس کے بارے میں آپ کو کڑی سزا دیں گے۔میں نے کہا میں یہاں ایک فارنر ہوں، پردیسی ہوں۔۔جیسا ہمارا بہانہ ہوتا ہے، ،میں کچھ زیادہ آداب نہیں جانتا۔قانون سے میں واقف نہیں ہوں تو میرے اوپر مہربانی فرمائیں۔

انہوں نے کہا، ،آپ زبان تو ٹھیک ٹھاک بولتے ہیں، وضاحت کر رہے ہیں۔آپ کیا کرتے ہیں، ،تو میں چپ کر کے کھڑا رہا۔۔پھر انہوں نے پوچھا کہ عدالت آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ کون ہیں، اور آپ کا پیشہ کیا ہے؟؟

میں نے کہا میں ایک ٹیچر ہوں۔۔پروفیسر ہوں روم یونیورسٹی میں۔۔تو وہ جج صاحب کرسی کو سائڈ پر کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے اعلان کیا

،teacher in the court, Teacher in the court,,

جیسے اعلان کیا جاتا ہے اور وہ سارے آٹھ کر کھڑے ہو گئے۔۔منشی، تھانے دار، عمل دار جتنے بھی تھے، اور اس نے حکم دیا کہ

،،chair should be brought for the teacher, A teacher has come to the court,,

اب وہ کٹہرا چھوٹا سا، میں اس کو پکڑ کر کھڑا ہوں۔وہ کرسی لے آنے۔حکم ہوا تو ٹیچر ہے کھڑا نہیں رہ سکتا تو پھر اس نے ایک بانی پڑھنی شروع کر دی۔جج نے کہا، ،اے معزز استاد!!اے دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد!!اے محترم ترین انسان!اے محترم انسانیت!آپ ہی نے ہم کو عدالت کا اور عدل کا حکم دیا ہے اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم پڑھایا ہے اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔اسی لیے ہم آپ کے فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔عدالت نے جو ضابطہ قائم کیا ہے اس کے تحت آپ کو چیک کریں باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات کی شرمندگی ہے ہم بے حد افسردہ کہ ہم ایک استاد کو جس سے محترم اور کوئی نہیں ہو سکتا، اپنی عدالت میں ٹرائل کر رہے ہیں اور یہ کسی بھی جج کےلئے انتہائی تکلیف دہ موقع کہ کورٹ میں، کٹہرے میں ایک استاد مکرم ہو اور اس سے ٹرائل کیا جائے، ،

اب میں شرمندہ اپنی جگہ پر، یا اللہ یہ کیا شروع ہو رہا ہے، ،میں نے کہا، حضور جو بھی آپ کا قانون ہے، علم یا جیسے کیسے بھی آپ کا ضابطہ ہے اس کے مطابق کریں، میں حاضر ہوں۔۔تو انہوں نے کہا، ہم نہایت شرمندگی کے ساتھ، اور نہایت دکھ کے ساتھ اور گہرے الم کے ساتھ آپ کو ڈبل جرمانہ کرتے ہیں۔ڈیڑھ روپیہ ہو گیا، ،

اب جب میں آٹھ کر اس کرسی میں سے اس کٹہرے میں سے نکل کر شرمندہ باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا، وہ جو جج، اس کا عملہ تھا، اس کے منشی تھے وہ سارے جناب میرے پیچھے پیچھے جا رہے تھے کہ ہم احترام فائقہ کے ساتھ آپ کو رخصت کرتے ہیں۔۔میں کہوں میری جان چھوڑیں، یہ باہر نکل کر میرے ساتھ کیا کریں گے۔آگے تک، میری موٹر تک مجھے چھوڑنے آئے جب تک کہ وہاں سے سٹارٹ نہیں ہو گیا وہ عملہ وہاں پر ویسے ہی کھڑا تھا

اب میں لوٹ کے آیا تو میں سمجھا، یا اللہ میں بڑا معزز آدمی ہوں اور محلے والوں کو بھی آ کر بتایا کہ میں ایسے گیا تھا اور وہاں پر یہ ہوا۔۔وہ بھی جناب، جو میری لینڈ لیڈی تھی وہ بھی بڑی خوشی کے ساتھ محلے میں چوڑی ہو کے گھوم رہی تھی کہ دیکھو ہمارا یہ ٹیچر گیا اور کورٹ نے اتنی عزت کی اس کی عزت افزائی ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ اس کے ساتھ ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گا دیسی آدمی ہے ناں وہ چاہے ٹیچر بھی ہو وہ گریڈ کا ضرور سوچے گا، کتنی بھی آپ عزت دے دیں، کتنا بھی احترام دے دیں، وہ پھر بھی ضرور سوچے گا کہ مجھے کہیں سے کوئی چار پیسے بھی ملیں گے کہ نہیں، ،میں نے اپنے ریکٹر سے پوچھا تو اس نے کہا، ،نہیں تنخواہ یہاں پروفیسر کی اتنی ہی ہے جتنی تمہارے پاکستان میں ہے وہ کوئی مالی طور پر اتنے بڑے نہیں ہیں لیکن عزت کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں رتبہ ان کا بہت زیادہ ہے اور کوئی شخص یہاں کوئی بیوروکریٹ ہو،کوئی جج ہو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے، یہاں کا تاجر ہو، یہاں کا فیوڈل لارڈ ہو وہ استاد کے رتبے کے پیچھے اسی طرح چلتا ہے جیسے روم کے دنوں میں غلام اپنے آقا کے پیچھے چلتے تھے، مالی طور پر وہ بھی بیچارے ہیں یہی ان کا کمال ہے کہ مالی طور پر کمتر لیکن رتبے کے طور پر بہت اونچے ہیں جیسے سقراط جو تھا وہ اپنے کھنڈروں میں اور فورم میں کھڑا ہو کے ننگے پاؤں بات کرتا تھا لیکن اس کا احترام تھا وہ کوئی امیر آدمی نہیں تھا۔۔میرا باس کہا کرتا تھا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button