اقتباس

بھروسہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، کسی قبیلے کا سردار اپنے گھوڑے پر سوار تنہا صحرا میں جارہا تھا، سفر کے دوران اس نے دیکھا کہ ایک شخص ریت میں دھنسا پڑا ہوا ہے، سردار نے گھوڑا روکا، نیچے اترا، اس شخص کے جسم پر سے ریت ہٹائی، تو دیکھا کہ وہ جو کوئی بھی تھا بے ہوش چکا تھا ، سردار نے اسے ہلایا جلایا تو، وہ نیم وا آنکھوں کے ساتھ پانی پانی پکارتے ہوئے کہنے لگا، پیاس سے میرا حلق اور میری زبان کسی سوکھے ہوئے چمڑے کی طرح اکڑ چکی ہے، اگر پانی نہ پیا تو مر جاؤں گا، سردار نے سوچا کہ وضع قطع سے اجنبی دکھائی دینے والا شخص ، جو اردگرد کے کسی بھی قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ، پتا نہیں کب سے یہاں بے یارو مددگار پڑا ہوا ہے، اس نے جلدی سے گھوڑے کی زین کے ساتھ لٹکی ہوئی چھاگل اتاری اور اس اجنبی کے ہونٹوں سے لگا کر اس کی پیاس بجھانے لگا، اجنبی نے خوب سیر ہوکر پانی پیا، سردار کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا، اے رحم دل شخص، میرا گھوڑا شاید کہیں بھاگ گیا ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم مجھ پر مزید احسان کرتے ہوئے اپنے ساتھ بٹھا کر کسی قریبی جگہ لے جاؤ، جہاں میں اپنی سواری کا بندوبست کرسکوں؟
سردار نے خوشدلی سے کہا، ہاں کیوں نہیں،
سردار گھوڑے پر سوار ہوکر اس اجنبی سے کہنے لگا، آجاؤ میرے پیچھے بیٹھ جاؤ، اجنبی بمشکل زمین سے اٹھا اور اٹھ کر دو تین بار گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر ہر بار نقاہت کے باعث گرجاتا رہا، وہ سردار سے کہنے لگا، اس سنگدل صحرا نے میرے جسم کی ساری طاقت نچوڑ لی ہے، براہ کرم کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ اتریں اور گھوڑے پر سوار ہونے میں میری مدد کریں.
سردار بخوشی اتر کر اس اجنبی کو گھوڑے پر بٹھانے میں مدد کرنے لگا، اجنبی جیسے ہی گھوڑے پر سوار ہوا ، اس نے ایک زوردار لات سردار کے پیٹ میں رسید کی اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بھگا لے گیا. سردار نے پیچھے سے آوازیں دیں، تو اس اجنبی شخص نے رک کر کہا، شاید تم خجالت محسوس کررہے ہو کہ ایک اجنبی کے ہاتھوں دھوکا کیسے کھاگیا.
سنو میں ایک راہزن ہوں اور لٹیرے سے رحم کی بھیک مانگنا بے کار ہے ، اس لیے چیخنے چلانے سے کوئی حاصل نہیں ہوگا.
سردار نے جواب دیا کہ میں ایک قبیلے کا سردار ہوں، اور بھیک مانگنا یا رحم کی درخواست کرنا ایک سردار کی شان کے خلاف ہوتا ہے،
میں فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ،
بات میری شرمندگی کی نہیں ہے،
بلکہ جب تم کسی منڈی میں اس گھوڑے کو فروخت کرنے جاؤ گے، تواس نایاب نسل کے گھوڑے کے متعلق لوگ ضرور پوچھیں گے، انہیں میرا بتانا کہ فلاں قبیلے کے فلاں سردار نے مجھے تحفتاً دیا تھا،
کسی بھی محفل میں صحرا میں لاچار اور بے یارو مددگار شخص کا روپ دھار کر مدد حاصل کرنے کے بہانے لوٹنے کا قصہ مت سنانا ”
ورنہ لوگ بے رحم صحراؤں میں مدد کے طلبگار اجنبیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے”

( عربی حکایات سے ماخوذ )

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button