شاعری

بیخود یہی تو دن ہیں عیش و نشاط کے۔۔۔۔

عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ
واقف نہیں ابھی مرے دل کی لگی سے آپ

دل بھی کبھی ملا کے ملے ہیں کسی سے آپ
ملنے کو روز ملتے ہیں یوں تو سبھی سے آپ

ہوگا جدا یہ ہاتھ نہ گردن سے وصل میں
ڈرتا ہوں اڑ نہ جائیں کہیں نازکی سے آپ

زاہد خدا گواہ ہے ہوتے فلک پر آج
لیتے خدا کا نام اگر عاشقی سے آپ

اب گھورنے سے فائدہ بزم رقیب میں
دل پر چھری تو پھیر چکے بے رخی سے آپ

دشمن کا ذکر کیا ہے جواب اس کا دیجئے
رستہ میں کل ملے تھے کسی آدمی سے آپ

شہرت ہے مجھ سے حسن کی اس کا مجھے ہے رشک
ہوتے ہیں مستفیض مری زندگی سے آپ

میں بے وفا ہوں غیر نہایت وفا شعار
میرا سلام لیجے ملیں اب اسی سے آپ

آدھی تو انتظار ہی میں شب گزر گئی
اس پر یہ طرہ سو بھی رہیں گے ابھی سے آپ

بدلا یہ روپ آپ نے کیا بزم غیر میں
اب تک مری نگاہ میں ہیں اجنبی سے آپ

اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف
انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ

بیخودؔ یہی تو عمر ہے عیش و نشاط کی
دل میں نہ اپنے توبہ کی ٹھانیں ابھی سے آپ

بیخود دہلوی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button