معاشرتی کہانیاں

تعبیر سے محروم میرے خواب بہت ہیں، آخری قسط

<span;>اوہ یار!!!حسن اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھا ایک دم بول اٹھا۔۔۔۔لیکن زاریہ کی شرارتی ہنسی نے اس کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔۔
<span;>میری بات سنی آپ نے؟؟ زاریہ نے اپنے چہرے پر ہلکا رعب طاری کیا۔۔۔۔
<span;>جی میڈم!!!بندہ آپ کا غلام ہے۔۔۔فرمائیے؟؟
<span;>اوہو!!!کیا تابعداری ہے!!!زاریہ نے آنکھیں پھیلائیں اور ہنس دی
<span;>جناب غلام صاحب!!!!اصل غلام۔۔۔۔۔یعنی کہ میں یہ عرض کر رہی ہوں کہ نگین کی شادی پہ میں نے خوب انجوائے کرنا ہے۔۔۔۔بہت ساری چیزیں لینی ہیں۔۔۔بہت کچھ لینا دینا ہے۔۔۔۔۔اور کچھ دن پہلے وہاں چلے جائیں گے ہم۔۔۔۔۔یعنی میں اور بچے!!!
<span;>اچھا!!!!حسن سوچ میں پڑ گیا۔۔۔باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن پہلے جانے والی بات اس کے لیے مان لینا تھوڑا مشکل تھا کیونکہ وہ زاریہ اور بچوں کے بغیر رہ ہی نہ پاتا تھا۔۔۔زاریہ کو اس بات کا اندازہ تھا اس لیے اس نے یہ بات پہلے ہی طے کرنا مناسب سمجھا
<span;>خیر دونوں کی آپس کی بات چیت سے سب پلاننگ ہو گئی
<span;>اچھا زاریہ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن تمہیں بھی میری ایک شرط ماننا ہو گی!!!!
<span;>جی حسن بتائیں؟
<span;>زاریہ جو سب کچھ بخیر و عافیت، بغیر کسی بحث کے سب کچھ طے ہو جانے پر خوش تھی۔۔۔متفکر ہو گئی
<span;>تم کسی بھی ناچ گانے والی ایکٹیوٹی میں حصہ نہیں لو گی۔۔۔۔مجھے یہ سب پسند نہیں
<span;>زاریہ نے کچھ لمحے کےلئے سوچا۔۔۔سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہونے جا رہا تھا تو یہ بات مان لینے میں اسے کوئی مشکل نہیں لگ رہا تھا لہذا اس نے حسن کو یقین دلایا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی
<span;>حسن کی اجارہ داری اور حاکمانہ فطرت بھلا کیسے نہ عود کر آتی؟؟؟زاریہ سوچ کر رنجیدہ تو ہوئی لیکن اب بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا
<span;>شادی میں شرکت کیلئے خوب تیاریاں کیں معید اور ماہا نے اپنی اپنی پسند کے کپڑے جوتے لئیے۔۔۔حسن ان لوگوں کو کچھ دن پہلے سحر بھابھی کے گھر چھوڑ آیا۔۔۔۔بھابھی نے اس کو بھی رکنے کےلئے کہا لیکن اس نے جاب پر جانے کی وجہ سے معذرت کر لی تھی
<span;>شادی کے ہنگامے اور تقریبات شروع ہو گئی تھیں زاریہ ایک طویل عرصے بعد اپنے سب رشتہ داروں سے ملی تو ہر کوئی اس سے اسی بات کا شکوہ کناں تھا کہ وہ ملتی ملاتی نہیں۔۔۔آتی جاتی نہیں
<span;>سب کو کبھی کسی بات کا بہانہ اور کبھی کوئی عذر کر کے اس نے اپنا بھرم رکھا
<span;>اپنا بھرم رکھنا بھی تو ایک آرٹ ہے ناں!!! دل میں طوفان مچل رہے ہوں۔۔۔۔لیکن دیکھنے والوں کو مطمئن نظر آنا چاہیے۔۔۔۔۔چیخ چیخ کر رونے کو دل کرے لیکن مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اپنے جیون ساتھی کی عزت کی خاطر اس کی طرف داری کرنی پڑے
<span;>گھر میں سو پابندیاں ہوں لیکن شوہر اور سسرال کا امیج خراب ہونے سے بچانے کیلئے اپنی مصروفیات کا بہانہ کرنا ہو
<span;>اپنے بچوں کے ذہن میں باپ کے خلاف کوئی بات نہ آنے دینا۔۔۔۔خود پر ہی ہر ذمہ ڈال لینا۔۔۔قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی یہ کہنا کہ بیٹا یہ میری ہی غلطی تھی!!! میں ہی نہ ایسے بات کرتی۔۔۔بابا کی غلطی نہیں ہے
<span;>یہ سب بھرم رکھنے کی وہ اشکال تھیں جن میں زاریہ ماہر ہو گئی تھی اور اس مہارت کو حاصل کرنے میں زیادہ نہیں۔۔۔بس اس کو اپنا آپ مارنا پڑا تھا
<span;>مایوں۔۔۔ڈھولک۔۔۔۔مہندی۔۔۔۔سب تقریبات میں بہت ہلا گلا کیا گیا۔۔۔خوب ڈانس۔۔۔۔گانوں کے مقابلے ہوئے سب بڑھ چڑھ کر اس میں شامل ہونے۔۔۔زاریہ کو بھی سب نے بہت کھینچا لیکن اس نے پائوں میں درد کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی تھی
<span;>شادی اور رخصتی کا دن آ پہنچا سب ہوٹل میں جانے کی تیاریاں کرنے لگے
<span;>ماما آج تو بابا بھی آئیں گے ناں؟؟
<span;>ماہا اور معید پوچھنے لگے
<span;>ہاں بھئی کیوں نہیں۔۔۔زاریہ ان کو تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی
<span;>سب مہمان آ چکے تھے شادی ہال میں روانگی کی تیاریاں ہو رہی تھیں قریبی رشتہ دار جو گھر آئے تھے وہیں دینا دلانا کر لیا تھا اور باقی مدعو عزیز و اقارب نے شادی ہال پہنچنا تھا
<span;>ارے واہ زاریہ!!!تم تو اب بھی پہلے کی طرح حسین ہو ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔تائی ناہید جنہوں نے زاریہ کو شادی کے بعد اب دیکھا تھا بہت خوش ہوئیں اور اس کی تعریف کیے بنا نہ رہ پائیں
<span;>جی تائی جان۔۔۔۔یہ تو آپ کی محبت ہے ”
<span;>زاریہ بھی ان سے مل کر بہت خوش ہو رہی تھی
<span;>اصل میں تائی ناہید نے اپنے بیٹے ہشام کے لیے زاریہ کا رشتہ لینے کے بہت جتن کیے تھے لیکن بات نہ بن سکی تھی جس کی وجہ سے ملنا ملانا قدرے ختم ہو گیا تھا لیکن اب سحر بھابھی نے ان شادی پہ بلایا تو وہ ہر بات بھلا کر چلی آئیں
<span;>سب مہمان آ چکے تھے شادی کا فنکشن شروع ہو گیا تھا لیکن حسن ابھی تک نہ پہنچا تو زاریہ کو فکر ہونے لگی
<span;>بچے بھی بار بار پوچھ رہے تھے زاریہ کے میکے والے بھی منتظر۔۔۔۔لیکن حسن نجانے کیوں آنے میں دیر کر رہا تھا
<span;>آخر زاریہ نے شوہر کو کال کی۔۔۔۔۔
<span;>یار آ ہی رہا ہوں۔۔۔ایسی کیا مصیبت پڑ گئی ہے۔۔۔حسن نے انتہائی رکھائی سے جواب دیا
<span;>زاریہ بہت شرمندہ اور دلگرفتہ ہو گئی اس نے بہت مشکل سے اپنے آنسو روکے
<span;>یہ حسن کی فطرت تھی۔۔۔اگر تو اس کا موڈ اچھا ہوتا تھا تو بلاوجہ ہی خوش ہوتے رہنا۔۔۔باتیں اور ہنسی مذاق کرنا۔۔۔زاریہ کے میکے والوں کو بہت اچھے طریقے سے ملنا۔۔۔خوب آوبھگت کرنی۔۔۔۔لیکن اگر موڈ خراب ہوتا تو کسی بات کی پرواہ نہ کرنی۔۔۔۔نہ یہ دیکھنا کہ سامنے والا کون ہے۔۔۔۔میرے خراب رویے سے اس کو کیا محسوس ہو گا؟؟۔۔۔۔میری بیوی کیا محسوس کرے گی یا اس کو کتنا دکھ اور تکلیف ہو گی۔۔۔۔
<span;>متعدد مرتبہ ایسا ہو چکا تھا اور زاریہ نے شکوہ بھی کیا لیکن وہ آگے سے کہتا۔۔۔
<span;>۔۔یہ تم ہی بات کو بڑھاوا دے رہی ہو ورنہ نہ تو میں نے ایسا کچھ کیا ہے اور نہ ہی سامنے والے نے کچھ محسوس کیا ہے۔۔اور زاریہ بیچاری چپ کر کے سارے آنسو پی جاتی
<span;>یہی وجہ تھی کہ اس کے میکے والے بہت کم اس کے گھر آتے تھے۔۔۔اور اب اس موقع پر۔۔۔جب سب رشتہ دار جمع ہیں۔۔۔حسن نے یہی رویہ رکھا تو کیا ہو گا؟؟؟
<span;>وہ انتہائی پریشان تھی۔۔آخر کار حسن شادی ہال میں پہنچ گیا تھا۔۔۔۔بچے بھاگ کر باپ سے ملے۔۔زاریہ بھی درذیدہ نگاہوں سے حسن کا موڈ بھانپتے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ویسے تو اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی لیکن اندر سے خوفزدہ تھی کہ حسن کچھ ایسا نہ کہہ دے جس سے رشتہ داروں میں تماشہ بن کر رہ جاؤں
<span;>زاریہ کے میکے والے حسن کو خوب پروٹوکول دے رہے تھے بظاہر تو وہ بھی خوش ہی نظر آ رہا تھا لیکن زاریہ کو یہی بات پریشان کیے ہوئے تھی کہ کہیں پر حسن کو کوئی بات بری لگ گئی تو کیا ہو گا
<span;>تقریب جاری تھی دلہا دلہن سٹیج پر بیٹھ چکے تھے نگین سرخ رنگ کے عروسی لباس میں بے حد پیاری لگ رہی تھی دلہا بھی کم نہ تھا۔۔۔بہت سمارٹ اور وجہہ تھا۔۔۔سب بہت خوش تھے اور دلہا دلہن کے ساتھ مستی مذاق اور رسوم و رواج کا دور چل رہا تھا رخصتی کا وقت قریب آنے سے پہلے فوٹو شوٹ شروع ہوا۔۔۔۔۔سب فیملی گروپ کی شکل میں فوٹو شوٹ کروا رہے تھے۔۔زاریہ اور حسن کی فیملی کو سٹیج پر بلایا گیا زاریہ ہنسی خوشی بچوں کو لے کر سٹیج کی طرف چل دی لیکن حسن اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا
<span;>حسن آئیں ناں!!!! زاریہ نے بڑے مان سے اسے بلایا لیکن اس نے انکار میں سر ہلایا
<span;>زاریہ سٹیج کے پاس پہنچی بچوں کو وہاں کھڑا کیا اور حسن کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھنے کےلئے کہا لیکن وہ مسلسل انکاری تھا
<span;>زاریہ اور بچوں کےلئے یہ بات پریشان کن تھی بچوں نے بھی پاس جا کر بلایا لیکن حسن کو ایک دم نجانے کیا ہوا تھا
<span;>صورتحال کو بھانپتے ہوئے زاریہ کے بھائی ولید نے آگے بڑھ کر حسن کو بہت ادب سے اور مسکراتے ہوئے سٹیج پر چلنے کی گزارش کی لیکن وہ نہ مانا
<span;>زاریہ کو بالکل بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مشکل وقت کو کیسے ہینڈل کرے یہ تو شکر ہوا کہ سب لوگ اپنی اپنی فیملی کو فوٹو شوٹ کےلئے لے کر جانے میں متوجہ تھے کسی نے نوٹس کیا بھی تو دوبارہ دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن زاریہ کو اپنے میکے والوں کے سامنے بہت خفت کا سامنا کرنا پڑا
<span;>جیسے تیسے کر کے یہ مرحلہ مکمل ہوا اب دلہن کی رخصتی کا ٹائم آ گیا
<span;>چلو بھئی اب گھر چلیں۔۔۔۔فنکشن تو ختم ہو گیا ہے !!!
<span;>حسن نے بچوں سے کہا۔۔۔۔۔
<span;>لیکن بابا ابھی تھوڑی دیر رک جائیں ناں!!!
<span;>ماما بھی ابھی رکنا چاہ رہی ہیں۔۔۔۔
<span;>لیکن حسن نے نہ بچوں کی سنی اور نہ ہی زاریہ کی کوئی تاویل کام آئی
<span;>بجھے دل کے ساتھ وہ سب سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔میکے میں سب نے رکنے کو کہا لیکن زیادہ اصرار نہ کیا کیونکہ وہ بھی حسن کی فطرت سے واقف تھے
<span;>گھر پہنچ کر زاریہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔بچے بھی بہت تھکے ہوئے تھے سامان وغیرہ نکالا اور آرام کے لیے لیٹ گئے
<span;>زاریہ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی اس کو حسن کے رویے کا شدید دکھ تھا لیکن شکوہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا حسن نے پہلی بار ایسا نہیں تھا لیکن ذلت کا جو احساس زاریہ کو ہوا تھا اس کا کوئی مداوا اس کو دکھائی نہیں دے رہا تھا
<span;>لیکن دوسری طرف زاریہ کی خاموشی حسن کو اندر ہی اندر پریشان کر رہی تھی اور وہ اپنے رویے پر پجھتا رہا تھا لیکن اعتراف کی صورت میں اس کی مردانگی پر حرف آتا
<span;>وہ زاریہ کی خدمت گزاری، بے لوث محبت اور خلوص کا دل سے گرویدہ اور معترف تھا اور خود بھی اس سے اور بچوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔۔۔زاریہ اور بچوں کے بغیر جینا اس کے لیے محال تھا۔۔۔ان کی چند دن کی جدائی بھی اس کے لیے ناقابل برداشت تھی لیکن پھر بھی پتہ نہیں کہاں کیا غلط تھا جو سب کچھ بکھرنے لگتا
<span;>اس نے زاریہ سے بات کرنے۔۔۔اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہو رہی تھی
<span;>زاریہ پلیز یار۔۔۔۔میں مانتا ہوں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے مجھے سب رشتہ داروں کی موجودگی میں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔
<span;>آخر اس نے زاریہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے تھے اور کلئیر الفاظ میں معافی چاہی تھی
<span;>ایک دو دن ایسے ہی چلتا رہا۔۔۔معید اور ماہا بھی پہلے تو ماں کی طرف داری کر رہے تھے لیکن باپ کی شرمندگی اور ندامت کا احساس ان سے چھپا نہ تھا اس لیے وہ بھی حسن کی حمایت میں زاریہ کو صلح کا کہنے لگے
<span;>لیکن زاریہ اتنی سختی سے اپنی ناراضگی برقرار رکھے ہوئے تھی کہ لگتا تھا کبھی موم ہو گی نہیں
<span;>زاریہ پلیز میری بات ایک بات سن لو۔۔۔۔۔
<span;>وہ کچن کی طرف جا رہی تھی تو حسن نے اس کا بازو تھام لیا۔۔۔اس نے مزاحمت کی
<span;>چھوڑیں حسن!!!اب آپ نے کیا بات کرنی ہے؟۔۔۔
<span;>اب کچھ کہنے کو رہ ہی کیا گیا ہے؟؟
<span;>جو آپ نے مجھے تماشہ بنانا تھا بنا لیا۔۔۔۔
<span;>اچھا یار پلیز!!! ادھر بیٹھو ۔۔۔حسن نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا
<span;>تم جانتی ہو ناں کہ میں تم سے اور بچوں سے کتنی محبت کرتا ہوں؟۔۔۔میں تم لوگوں کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔کوئی ایسی خواہش بتاؤ جو تم لوگوں نے کی ہو میں نے پوری نہ کی ہو۔۔۔کون سی آسائش ہے جو دوسروں کو میسر ہے لیکن آپ لوگ محروم ہو؟۔۔۔
<span;>میں نے یہ کب کہا حسن؟؟ زاریہ خاموشی سے سر جھکائے سن رہی تھی۔۔۔ہولے سے بولی
<span;>ہاں یہ ضرور ہے کہ میں کسی وقت تلخ ہو جاتا ہوں۔۔روک ٹوک بھی کرتا ہوں۔۔۔اور مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ آپ لوگ ان حدود سے تجاوز کرو یا اس دائرے سے باہر نکلو جو میں نے اپنے دماغ میں فکس کیا ہوا ہے۔۔۔لیکن کبھی تم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہے؟؟اس کا پس منظر کیا ہے؟؟
<span;>زاریہ حیرت سے دیکھنے لگی
<span;>چلو آج میں تمہیں بتاتا ہوں
<span;>حسن کی آواز رندھ گئی
<span;>میرے والد اور ماں کی وٹہ سٹہ کی شادی تھی۔۔میری پھوپھو میرے ماموں سے بیاہی گئی تھیں۔۔۔ماموں اعلی تعلیم یافتہ اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے جبکہ پھوپھو نے کوئی زیادہ تعلیم حاصل نہ کی تھی وہ پرائمری تک ہی پڑھ پائیں۔۔۔میرے والد کو تو جانتی ہی ہو کتنے پڑھے لکھے اور قابل پروفیسر تھے جبکہ امی میٹرک پاس تھیں۔
<span;>پھوپھو اور ماموں کی آپس میں کبھی بھی نہ بن پائی تھی ہر وقت لڑائی جھگڑا۔۔۔ان کی اولاد تو ہو گئی لیکن ذہنی ہم آہنگی کبھی بھی نہ ہو سکی
<span;>میرے ابو جان اپنی بہن سے بے حد محبت کرتے تھے چونکہ ان کے والدین کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا اس لیے بہن بھائیوں کی آپس میں محبت اور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی بے مثال تھی
<span;>پھوپھو لڑ جھگڑ آتیں۔۔۔ابو کو بڑھا چڑھا کر بتاتیں اور وہ میری بے قصور ماں کو ان کے میکے بھیج دیتے اور ظلم یہ کہ ہم بہن بھائی کو بھی ان کے ساتھ نہ جانے دیتے
<span;>امی کا ڈبڈبائی نظروں سے ہم دونوں کو دیکھنا اور پھر خاموشی سے اپنے گھر سے نکل جانا میں کبھی نہیں بھول پایا۔۔۔۔۔حسن کی آواز بھرا گئی اور چہرہ زرد پڑ گیا
<span;>ابو کو نہ ہماری ماں پہ ترس آتا اور نہ ہم پر۔۔۔۔کبھی کبھار جب امی کو زیادہ دن میکے رہنا پڑتا تو ہمیں ان کے پاس بھیج دیا جاتا۔۔۔ہمارے ننھیال والے بہت شریف لوگ تھے۔۔۔ہمارا بہت خیال رکھتے لیکن پھر بھی ماں باپ کی ناچاقی۔۔۔اپنا گھر ہو کر بھی بے گھر ہونا۔۔۔ماں کی بے بسی اور پھپھو کی بے حسی۔۔۔۔ان سب حالات نے مل کر میرے اندر ایک تلخی بھر دی۔۔۔۔مجھے خود غرض بنا دیا۔۔۔۔سخت مزاجی اور اکھڑ پن شائد انہی محرومیوں کا نتیجہ ہیں جو میرے ساتھ ہی پروان چڑھی ہیں۔۔میری سخت مزاجی اور خود غرضی فطری نہیں۔۔۔۔بلکہ اس احساس محرومی اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے جو میرے حالات کی وجہ سے میرے اندر پنپتا رہا
<span;>مجھے یہ خوف لاحق رہتا ہے اگر تم لوگوں کو اپنے کنٹرول میں نہ رکھ سکا تو تم لوگوں کو کھو دوں گا یا پھر اپنے رعب میں دبا کر نہ رکھا تو تم لوگ میرے اندر کے کمزور اور بزدل حسن سے واقف ہو جاو گے
<span;>حسن کی رلا دینے والی باتیں زاریہ کا دل چیر رہی تھیں۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔۔۔۔وہ کیا سمجھتی رہی اور حسن کیا تھا؟؟؟؟
<span;>وہ آگے بڑھ کر حسن کے گلے لگ گئی
<span;>پلیز حسن۔۔۔۔۔ایسا مت کہیں۔۔۔میں اور بچے آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم آپ کو چھوڑ دیں گے۔۔آپ ایک بہترین باپ اور بہترین شوہر ہیں۔۔۔۔اور بزدل کیوں بھلا؟؟ ہم ہیں ناں آپ کی طاقت۔۔۔۔۔۔۔
<span;>دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا اٹھے۔۔۔۔ماحول بھی بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔۔۔۔درو دیوار کی اداسیاں بھی رونقوں میں بدلنے کو تھیں
<span;>

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button