معاشرتی کہانیاں

تعبیر سے محروم میرے خواب بہت ہیں:- قسط نمبر ایک

<span;>انسان اپنے لئے تو بہت تھوڑی زندگی جیتا ہے باقی ساری عمر تو وہ اپنے سے جڑے رشتوں کو خوش کرنے میں گزار دیتا ہے …نجانے کس نے یہ لکھا اور کیا خوب لکھا۔۔۔حقیقت تو یہی ہے۔۔۔کبھی نہیں سوچا کہ میری خوشی کس بات ہے؟؟میرا سکون کس چیز میں چھپا ہے؟؟مجھے کیا پسند ہے؟؟اور اب جب زندگی کی اتنی بہاریں گزر چکی ہیں تو یہ سوچنے کا حاصل بھی کیا؟؟؟
<span;>زاریہ۔۔۔۔۔کن خیالوں میں گم ہو بھئی؟؟کب سے آوازیں دے رہا ہوں۔۔۔حسن کی آواز جو اس کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ چونک گئی۔۔۔
<span;>جی ۔۔جی حسن!!!کچھ چاہیے آپ کو؟؟؟
<span;>نہیں یار۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو کچھ نہیں چاہیے معید کب سے تمہیں بلا رہا ہے اس کو شائد اپنی جرابیں نہیں مل رہیں اور تم ہو کہ سن ہی نہیں رہی ہو۔
<span;>وہ۔۔۔حسن میں بس یہ برتن دھونے میں مصروف تھی پانی کے شور میں سنائی نہیں دیا
<span;>اس نے جلدی سے پانی کا نل بند کیا اور ہاتھ پونچھنے ہوئے جلدی سے معید کے کمرے کی طرف بڑھی
<span;>جی بیٹا۔۔۔۔۔۔کیا نہیں مل رہا؟؟
<span;>ماما میری جرابیں نہیں مل رہیں اور سکول کا ٹائم بھی ہو گیا ہے۔۔۔۔۔
<span;>معید روہانسا ہو کر بولا
<span;>اچھا میری جان!!!!اس میں پریشانی کی کیا بات ہے میں ابھی اپنے بیٹے کو دوسری نکال دیتی ہوں اصل میں وہ دھونے والی تھیں تو میں میں نے مشین میں رکھ دیں اور دوسرا جوڑا میں رکھنا بھول گئی۔۔۔۔۔
<span;>جی ماما۔۔۔اٹس اوکے۔۔۔۔
<span;>معید نے جلدی جلدی جرابیں پہنیں اور بوٹ پہن کر ،سکول بیگ اٹھا کر باہر لپکا
<span;>ماہا بیٹا۔۔۔جلدی چلو تمہارے پاپا اور بھائی گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔
<span;>زاریہ نے بیٹی کو آواز دی جو بار بار آئینے کے سامنے اپنا ہئر سٹائل سیٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی
<span;>جی ماما!!!!!بس آئی۔۔
<span;>یہ ان کے گھر کا روز کی صبح کا معمول تھا زاریہ کی بھاگم دوڑ۔۔حسن کی پھرتیاں۔۔۔معید اور ماہا کی کھینچا تانی سے دن کی شروعات ہوتی
<span;>بچوں کے سکول اور حسن کے دفتر چلے جانے کے بعد زاریہ کچھ دیر سکون سے لیٹ جاتی کیونکہ پھر گھر کے ڈھیروں کام نمٹانے میں اس کو وقت ہی نہ مل پاتا تھا
<span;>آج بھی حسب سابق وہ کچھ دیر آرام کے لیے اپنے بیڈ پر لیٹ گئی نجانے کیوں آج اسے امی ابو اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرے دن شدت سے یاد آنے لگے
<span;>اہ کتنے خوبصورت لوگ۔۔۔کتنے خوبصورت دن۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔۔۔
<span;>وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی جہاں بہت سا لاڈ پیار اس کے حصے میں آیا وہیں بہت سی ذمہ داریاں ایسی بھی تھیں جو صرف اس کے لیے تھیں امی نے تو تربیت کرنی تھی ابو بھی گاہے بگاہے اس کو یہ احساس دلاتے
<span;>۔۔۔دیکھو بیٹا!!!!تم بہن بھائیوں میں بڑی ہو۔۔تم ان کے لیے ایک رول ماڈل ہو۔۔۔تم جو کرو گی وہ اسی مشاہدے اور تجربات کو دیکھ کر اپنی شخصیت کو ڈھالیں گے۔۔۔۔لہذا یہ کبھی مت بھولنا کہ تم اپنی ذات میں اکیلی نہیں ہو بلکہ تم سے جڑے رشتوں کو بھی تمہیں لے کر چلنا ہے۔۔۔
<span;>جی ابو جان۔۔۔۔میں آپ کی بات سمجھتی ہوں
<span;>وہ سر جھکائے والد کی باتیں خاموشی سے سن کر اور ان کو مطمئن کر کے خود بے سکون ہو جاتی
<span;>زاریہ بیٹا۔۔۔۔یہ کیا فرمائشیں شروع کر دیں؟؟؟
<span;>جانتی ہو جو تم کرو گی وہی چھوٹی بہن کرے گی؟؟
<span;>کبھی کبھار لاڈ میں امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر وہ کسی سہیلی کے گھر جانے یا کوئی اور فرمائیش کرتی جو امی کی نظر میں گھر کے ماحول سے مطابقت نہ رکھتی تو ان کا یہی جواب اور یہی دلیل ہوتی
<span;>زاریہ کے والد پیشے کے اعتبار سے پروفیسر تھے جبکہ والدہ زیادہ نے بس واجبی سی تعلیم حاصل کر رکھی تھی والد اور والدہ آپس میں کزن تھے کیونکہ خاندان میں باہر شادی کا اتنا رجحان نہیں تھا بس عمروں کے جوڑ اور قریبی رشتہ داری دیکھ کر رشتے طے کر دیئے جاتے تھے اس نے بھی جب شعور کی منزل پہ قدم رکھا تو اپنا نام حسن سے منسوب پایا لیکن چونکہ اس کے والد خود اعلی تعلیم یافتہ تھے لہذا بچوں کی پڑھائی کی تکمیل ان کی اولین ترجیح تھی باقی معاملات اس کے بعد تھے
<span;>جیسے ہی زاریہ نے تعلیم مکمل کی حسن کی والدہ تو گویا انتظار میں تھیں کیونکہ حسن بینک میں اعلی عہدے پر فائز تھا گھر بار بھی بہترین تھا قریبی رشتہ داری تھی تو انکار یا ٹال مٹول کی کوئی وجہ بنتی نہ تھی۔۔۔
<span;>کچھ عرصہ شادی کی تیاریاں وغیرہ ہوتی رہیں پھر زاریہ بیاہ کر حسن کے گھر آ گئی۔۔۔
<span;>حسن کی والدہ اور چھوٹی بہن حانیہ بہت محبت کرنے والی تھیں والد کا انتقال ہو چکا تھا گھر کی ساری ذمہ داریاں اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے حسن کے سر پر تھیں جن کو احسن طریقے سے نبھا رہا تھا
<span;>وہ زاریہ سے بےپناہ محبت کرتا اس کی ہر خواہش پوری کرتا۔۔۔۔ہر طرح سے خیال رکھتا۔۔۔زاریہ کی ذرا سی تکلیف اس کو برداشت نہیں ہوتی تھی کبھی جو زاریہ نے کوئی خواہش کرنی اس کو جی جان سے پوری کرتا
<span;>ساس اور نند بھی اس بات سے پوری طرح آگاہ تھیں کہ زاریہ حسن کی زندگی میں کیا حیثیت رکھتی ہے اکلوتا بیٹا اور اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے ویسے ہی وہ حسن پہ جان چھڑکتیں تھیں پھر بھلا وہ زاریہ کو کیونکر کوئی تکلیف دیتیں
<span;>زندگی بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔لیکن؛؛؛؛
<span;>کہتے ہیں ناں کہ کبھی بھی کسی کو پورا نہیں ملتا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خلا رہتا ہے جو انسان کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔اگر سو فیصد مل جائے تو پھر خدا کو کون یاد کرے؟؟؟کبھی کبھی ایسی صورتحال ہو جاتی ہے کہ انسان خود کو انتہائی بےبس اور اکیلا سمجھنے لگتا ہے۔۔۔چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ پانا۔۔۔کچھ بدل نہ پانا۔۔۔سو لحاظ آڑے آتے ہیں۔۔۔رشتوں کی بظاہر مضبوط زنجیریں کمزور پڑتی محسوس ہونے لگتی ہیں اور پھر مصلحت کا تالا دل اور زبان پر لگانا ہی پڑتا ہے
<span;>ایسا ہی کچھ زاریہ کی زندگی میں تھا
<span;>حسن یوں تو آئیڈیل شوہر اور باپ تھا لیکن اس کی طبیعت کا روکھا پن۔۔۔خشک مزاجی۔۔۔بلاوجہ کا غصہ اور روک ٹوک زاریہ کےلئے سوہان روح تھا حسن کی حد درجہ تحکمانہ فطرت اس کےلئے اور بچوں کےلئے بعض اوقات ناقابل برداشت ہو جاتی۔۔۔۔ہر بات میں اس کی مرضی شامل ہونا ضروری تھا۔۔۔۔کہاں آنا ہے، کہاں جانا ہے، کس سے ملنا ہے، یہ سب معاملات اس نے اپنے ہاتھ میں مکمل طور پر رکھے ہوئے تھے
<span;>بابا۔۔۔۔آج تو دل چاہ رہا ہے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں جا کر کچھ کھایا جائے۔۔۔۔اتنے دن ہو گئے ماما، ،آپ اور ماہا، ،میں، ،کہیں نہیں گئے۔۔۔۔
<span;>باپ کے ساتھ لیٹے معید کے دل میں اچانک نجانے کیا خواہش مچل اٹھی کہ فرمائشی پروگرام شروع کر دیا
<span;>حسن لاکھ سخت مزاج سہی لیکن بچوں کی کبھی کوئی بات نہ ٹالتا
<span;>ہوں۔۔۔۔۔کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔۔لیکن ماما اور ماہا سے پہلے پوچھ تو لو۔۔۔۔وہ جانا چاہتی بھی ہیں؟؟
<span;>اوکے پاپا صاحب!!!!ابھی پوچھ کر آیا۔۔۔
<span;>معید شرارت سے سینے پر ہاتھ باندھ کر جھک کر بولا
<span;>ڈرامے باز۔۔۔۔اب جائو۔۔۔حسن نے قہقہہ لگاتے ہوئے بیٹے کے گال پر چٹکی بھری
<span;>باہمی مشاورت سے شہر کے مشہور پزا ہٹ جانے کا پروگرام بن گیا۔۔۔۔سب تیار ہو کر نکل پڑے
<span;>ٹیبل پر پزا سرو ہو گیا۔۔۔کولڈ ڈرنکس بھی آرڈر کر دی گئیں سب خوب مزے سے کھا پی رہے تھے
<span;>واپسی پر راستے میں بچوں نے آئس کریم کی خواہش کی لیکن زاریہ جانتی تھی کہ کچھ کہا تو حسن کا پارہ ہائی ہو جائے گا
<span;>وہ تھا ہی ایسا۔۔۔۔پل میں تولہ، ،پل میں ماشہ
<span;>وہ حسن میں کہہ رہی تھی گھر جاتے جاتے آئس کریم بھی لے لیتے ہیں۔۔۔زاریہ نے سوچ سمجھ اور ناپ تول کر الفاظ کا انتخاب کیا
<span;>کیا مطلب؟؟؟ حسن نے تیوری چڑھائی
<span;>ابھی کوئی کسر ہے؟؟؟
<span;>نہیں حسن۔۔۔۔بچے کہہ رہے تھے میں تو اس لئے کہہ رہی تھی لیکن چلیں کوئی بات نہیں پھر کبھی لے لیں گے۔۔۔
<span;>زاریہ نے حسن کے غصے کو بھانپتے ہوئے فورا” صورتحال کو سنبھالا
<span;>بچے بھی پریشان ہو گئے تھے کہ اتنی معمولی بات پر اتنا غصہ
<span;>تم لوگوں کا جو بھی پروگرام ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت بتایا کرو۔۔۔
<span;>حسن کی تلملاہٹ سے سب نے خاموشی اختیار کر لی
<span;>یہ سب نیا نہیں تھا حسن کی بہت ساری باتیں اور عادتیں زاریہ کےلئے انتہائی پریشان کن تھیں لیکن ان کا کوئی حل نہیں تھا
<span;>موبائل فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی زاریہ کچن میں مصروف تھی۔۔۔پتہ نہیں اس وقت کون ہے۔۔۔کھانا بھی لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔بچوں کےلئے فروٹ چاٹ بھی بنانی ہے۔۔۔وہ خود سے ہی بڑبڑاتے ہوئے فون کی طرف لپکی
<span;>دوسری طرف اس کی سکول فیلو۔۔بچپن کی دوست مریم تھی
<span;>یار زاریہ تم تو پتہ نہیں کہاں اتنی مصروف رہتی ہو کبھی رابطہ ہی نہیں کیا
<span;>ہاں بس مریم گھر اور بچوں سے ہی فرصت نہیں ملتی
<span;>اب بھی کچن میں تھی۔۔۔یار میری کوشش ہوتی ہے حسن کے آنے سے پہلے ہر چیز تیار ہو ورنہ اس کو بہت برا لگتا ہے
<span;>توبہ ہے زاریہ۔۔۔۔تم نے تو حسن بھائی کو زیادہ ہی سر پر چڑھا لیا ہے۔۔۔انسان کی اپنی بھی کوئی شخصیت، کوئی مرضی کی زندگی ہوتی ہے
<span;>اچھا بہرحال میں نے تمہیں یہ بتانا تھا کہ شہلا کینیڈا سے آ رہی ہے اور وہ چند دن ادھر سسرال میں رہے گی ہم سب سہیلیوں نے اس سے ملنے کا پروگرام بنایا ہے ہم سب بہت آکسائیٹڈ ہیں کہ اتنے عرصے بعد اکٹھے ہوں گے تمہیں یہی بتانے کےلئے کال کر رہی تھی
<span;>اچھا!!!!واقعی شہلا آ رہی ہے؟؟؟مجھے تو بہت خوشی ہو رہی ہے۔۔۔زاریہ اپنی پرانی اور قریبی دوست کے آنے کا سن کر چہک اٹھی
<span;>ہاں یار۔۔۔۔یہیں اسی شہر میں اس کا سسرال ہے اسی لیے تو تمہیں کہہ رہی ہوں آنا۔۔۔۔
<span;>اچھا ٹھیک ہے حسن آ جائیں پھر میں پوچھ کر بتاتی ہوں۔۔
<span;>اوکے۔۔۔۔میں انتظار کروں گی۔۔۔مریم نے کال ختم کی

<span;>زاریہ خوش تو بہت ہوئی کہ اتنے عرصے بعد سب سہیلیوں سے ملنے کا موقع مل رہا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کو لے کر پریشان بھی کہ نجانے حسن کا ری ایکشن کیا ہو گا کیونکہ حسن کی پوزیسو نیچر اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ زاریہ اسے، گھر اور بچوں کو پیچھے کر کے کسی بھی اور چیز کو آگے رکھے خواہ وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو
<span;>واہ زاریہ میڈم واہ۔۔۔۔۔۔لوگوں کی نظر میں تو آپ کی زندگی آئیڈیل ہے۔۔۔۔ساس نند۔۔۔۔میکہ۔۔۔۔ملنے ملانے والے لوگوں کی نظر میں تو حسن جیسا خیال رکھنے والا پیار کرنے والا۔۔۔۔بیوی کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے والا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔لیکن حقیقت کیا ہے؟؟؟
<span;>یہ میں ہی جانتی ہوں۔۔۔۔۔
<span;>خود کلامی کرتے ہوئے۔۔۔۔۔خود ہی سوال۔۔۔۔خود ہی جواب دیتے زاریہ جلدی جلدی کام نمٹا رہی تھی اور ذہن میں حسن سے بات کرنے۔۔۔اجازت لینے کی پلاننگ بھی چل رہی تھی
<span;>خیر جب تک حسن اور بچے گھر آئے وہ گھبراہٹ اور سٹپٹائی ہوئی کیفیت سے باہر آ چکی تھی اور حسن کو جانے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی کیونکہ یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور وقت سب سے بڑا استاد ہے جو سبق تعلیم و تربیت سے نہیں ملتا وقت اچھے سے سکھا دیتا ہے اس کو بھی کافی حد تک شوہر کے مزاج کے مطابق بات کرنے اور منوانے کے طریقے آ گئے تھے لیکن یہ بات ہمیشہ تکلیف دہ رہی کہ حسن اپنے موڈ کے حساب سے چلتا تھا اس کو اس بات کی قطعی طور پر پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ سامنے والا شخص کیا چاہتا ہے موڈ اچھا ہے تو دریا پار کر جانا ہے اور موڈ خراب ہے تو ندی پہ اٹک جانا ہے
<span;>شہلا سے ملنے کےلئے اس کے سسرال کی بجائے رمشہ کے گھر سب نے گیٹ ٹو گیدر رکھ لیا تھا تمام سہیلیاں طویل عرصے بعد ملنے پر خوشی سے بے حال تھیں ایک دوسری کی جسامت پر تبصرے سے لے کر شوہر، بچے، سسرال، گھر بار سب موضوع بحث تھا
<span;>اتنی خوشی میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اچانک سے زاریہ کو خیال آیا کہ حسن کو کال کر کے بتا دوں کہ کچھ دیر بعد آ رہی ہوں
<span;>”” ہیلو حسن!!!! آپ گھر ہی ہیں ناں؟؟؟
<span;>ہاں۔۔۔۔اور تمہارا لگتا ہے گھر آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔۔
<span;>حسن انتہائی رکھائ سے بولا
<span;>تمہیں پتہ بھی ہے بچوں کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔گھر اکیلا ہے۔۔۔امی تو نہیں نہ سب دیکھ سکتیں اور تم جا کر بیٹھ ہی گئی ہو۔۔۔۔۔
<span;>حسن کی غصیلی آواز زاریہ کےلئے تکلیف دہ تھی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے
<span;>حسن میں آپ کو بتا کر اور آپ سے پوچھ کر آئی تھی
<span;>۔۔۔دکھ کے مارے الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے تھے
<span;>مریم۔۔۔شہلا۔۔رمشہ اور باقی سب اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں
<span;>حسن نے کال کاٹ دی تھی۔۔۔
<span;>کیا ہوا زاریہ؟؟؟
<span;>سب اس سے پوچھنے لگیں
<span;>کچھ نہیں یار وہ آج گھر میں کچھ مہمان آنے تھے اور مجھے یہاں دیر ہو گئی۔۔۔۔حسن یہی کہہ رہے تھے کہ کب تک آئو گی
<span;>زاریہ نے آنسو پی لئے اور اپنے چہرے کے کرب کو چھپانے کی کوشش میں مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائی
<span;>۔۔۔۔۔ایک عربی کہاوت ہے کہ “”وہ مسکراتی ہیں لیکن ان کے دل میں ارمانوں کے جنازے پڑے ہوتے ہیں-”
<span;>یہی حال زاریہ کا تھا۔۔۔۔۔وہ کبھی اس چیز کو سمجھ ہی نہ پائی کہ وہ خود کو خوش قسمت تصور کرے کہ اتنی محبت کرنے والا اور ہر طرح سے خیال رکھنے والا شوہر ملا ہے جبکہ دوسری طرف اس کی اپنی ذات نجانے کہاں تھی؟؟
<span;>حسن کی خود پسندی۔۔۔مزاج کا اتار چڑھائو۔۔
<span;>بلاوجہ کا چڑچڑا پن۔۔۔۔یہ سب باتیں ۔۔سب معاملات ایسے تھے جن کا کوئی حل نہیں تھا اور بسا اوقات تو یہ سب ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہو جاتا تھا
<span;>۔۔۔۔کبھی تو اس کا دل کرتا چیخ چیخ کر روئے اور کوئی تو ایسا ہو جس کے پاس ان سب مسائل کا حل ہو۔۔۔کوئی تو میرے لفظوں کے تیروں سے چھلنی روح و جگر پہ مرہم رکھے
<span;>”” کیا حال سناواں دل دا
<span;>کوئی محرم راز نہ ملدا
<span;>انہیں سوچوں میں گم وہ گھر واپس آئی۔۔۔۔حسن خاموش تھا لیکن اس کی غصیلی آنکھوں سے سب ظاہر ہو رہا تھا
<span;>۔۔۔۔۔ماما اتنی دیر؟؟؟
<span;>معید بھی باپ کا چمچہ تھا
<span;>” ۔۔تمہیں کیا پرابلم ہے؟۔۔۔ماما اتنی دیر بعد اگر اپنی فرینڈز سے ملنے چلی ہی گئی ہیں تو کون سا قیامت آ گئی ہے “”
<span;>ماہا معید کے پیچھے پڑ گئی۔۔۔لیکن اپنی آواز اس نے نیچی ہی رکھی کہ باپ کو بھی تو ناراض نہیں کر سکتی تھی
<span;>زاریہ نے اسے پیار کیا۔۔۔معید سے اس کے ہوم ورک کے بارے میں اور کھانے وغیرہ کے بارے میں پوچھتی ہوئی بچوں کے کمرے میں ہی آ گئی
<span;>حسن نے اس سے کوئی بات نہ کی اور نہ ہی اس نے حسن کے اوپر کچھ ظاہر کیا کہ اس کے رویے سے زاریہ کی اپنی سہیلیوں میں کتنی سبکی ہوئی تھی
<span;>دن ایسے ہی گزر رہے تھے وہ حسن کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی۔۔۔بچوں کی۔۔گھر کی تمام ضروریات دیکھتی لیکن اس مرتبہ اس کا دل اتنی بری طرح ٹوٹا ک شوہر کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو بھی دل نہ چاہتا
<span;>صبح سویرے کا ٹائم تھا۔۔۔چھٹی کا دن تھا۔۔۔بچے ابھی سو رہے تھے۔۔۔زاریہ نے فجر کی نماز ادا کی۔۔۔اپنے لئے چائے بنا کر ٹی وی لائونج میں آ کر بیٹھ گئی
<span;>بچے اور حسن آٹھ جائیں پھر ہی کوئی ناشتہ بناتی ہوں۔۔۔۔اپنے دل میں سوچ کر خود ہی اپنے آپ کو ریلیکس کرتے ہوئے چائے پینے لگی
<span;>اچانک سے پیچھے سے آ کر کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا
<span;>حسن کے ہاتھوں کے لمس کا بھلا اسے کیسے نہ پتہ چلتا
<span;>ہاں جی بیگم صاحبہ!!!!
<span;>اور کتنے دن ناراض رہنے کا ارادہ ہے؟؟؟
<span;>وہ سامنے آ گیا اور شرارت سے ہنستے ہوئے زاریہ کے گال پہ چٹکی بھر لی۔۔۔
<span;>زاریہ نے شکوہ کرتی نظر سے اس کی طرف دیکھا
<span;>””مجھے کیا حق ہے ناراض ہونے کا؟؟؟
<span;>میری حیثیت ہی کیا ہے؟؟؟
<span;>زاریہ کی آواز رندھ گئی
<span;>حسن اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پاس بیٹھ کر محبت سے اس کے ہاتھ تھام لیے
<span;>۔۔۔ساری حیثیتیں ہی آپ کی ہیں جناب!!!!
<span;>ہم بھی آپ کے۔۔۔۔دل بھی آپ کا۔۔۔۔جاں بھی آپ کی
<span;>۔۔۔حسن اس کی ناراضگی دور کرنے میں شوخ ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔
<span;>زاریہ بھی اس کی حرکتوں اور باتوں پہ مسکرا اٹھی
<span;>دونوں کے مابین گلے شکوے دور ہو گئے تھے
<span;>زاریہ ہر بات حسن کو جتا دینا چاہتی تھی لیکن اس کے دل میں اس بات بھی ڈر تھا کہ بحث طول نہ پکڑ جائے اور حسن کے مزاج کو تو پلٹنے میں لمحہ نہ لگتا تھا اس لیے خاموشی اختیار کی
<span;>بھابھی سحر اپنی بیٹی نگین کےلئے رشتہ کی تلاش میں تھیں وہ زاریہ کی دوست بھی تھی اور خالہ زاد بھی۔۔۔۔زاریہ کا شادی سے پہلے ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزرا تھا انہوں نے زاریہ کو بھی رشتے کےلئے کہہ رکھا تھا۔۔۔۔اس نے تو بھابھی سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ بھابھی آپ تو جانتی ہیں میرا اتنا سوشل سرکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی میں اپنی جو چند دوست ہیں ان سے کہہ دیتی ہوں
<span;>نگین خوبصورت اور اعلی تعلیم یافتہ تھی ساتھ ہی ایک ادارے میں جاب بھی کر رہی تھی خاندان بھی بہت اچھا تھا اس لئے زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑی اور ایک بہت اچھا رشتہ مل گیا
<span;>لڑکے والوں کو شادی کی جلدی تھی اس لئیے چٹ منگنی پٹ بیاہ والا حساب کرنا پڑ رہا تھا دونوں طرف سے شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں
<span;>حسن۔۔۔۔۔!!! آپ تو جانتے ہیں ناں مجھے سحر بھابھی اور نگین سے کتنی انسیت ہے ۔۔۔۔
<span;>زاریہ حسن کو چائے پکڑا کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور اس کو اپنی بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ سے موبائل فون لے لیا جس میں وہ منہمک تھا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button