شاعری

“تم جو ٹہر جائو تو “

(فیض احمد فیض )

فیض احمد فیض

تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو یہ لمحے بھی
آنے والے لمحوں کی امانت بن جائیں
تم جو ٹھہر جاؤ تو یہ رات، مہتاب
یہ سبزہ، یہ گلاب اور ہم دونوں کے خواب
سب کے سب ایسے مبہم ہوں کہ حقیقت ہو جائیں
تم ٹھہر جاؤ کہ عنوان کی تفصیر ہو تم
تم سے تلخیءِ اوقات کا موسم بدلے
رات تو کیا بدلے گی، حالات تو کیا بدلیں گے
تم جو ٹھہر جاؤ تو میری ذات کا موسم بدلے
مہرباں ہو کہ نہ ٹھہرو تو پھر یوں ٹھہرو
جیسے پل بھر کو کوئی خوابِ تمنا ٹھہرے
جیسے درویشِ بادہ نوش کے پیالے میں کبھی
اک دو پل کےلئے تلخیءِ دنیا ٹھہرے
ٹھہر جاؤ کہ مدارات مہہ خانے سے
چلتے چلتے کوئی ایک آدھ صبح ہو جائے
اس سے پہلے کہ کوئی لمحہ آئندہ کا تیر
اس طرح آئے کہ پیوستِ گلو ہو جائے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button