شاعری

تو کہ سورج تھا۔۔۔

تُو مخاطب تھا، کوئی بات وہ کرتا کیسے
تیری آنکھوں میں جو ڈوبا تھا، ابھرتا کیسے
میں جسے عمرِ گریزاں سے چرا لایا تھا
وہ ترے وصل کا لمحہ تھا گزرتا کیسے

میری مٹی میں فرشتوں نے اسے گوندھا تھا
میرے پیکر سے ترا رنگ اُترتا کیسے
میں نے کافر کو دلیلِ رُخِ روشن دی تھی
حُسنِ یزداں سے مکرتا تو مکرتا کیسے
آئینہ تیرے خد و خال، قد و قامت کو
روبرو دیکھ نہ پاتا تو سنورتا کیسے
کم نگاہی کا نہ طعنہ مجھے دینا عاجزؔ
تُو کہ سورج تھا تجھے آنکھ میں بھرتا کیسے

مشتاق عاجز

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button