شاعری

تھکے جا رہے ہیں۔۔۔۔

در و دیوار تھکتے جا رہے ہیں
شریکِ کار تھکتے جا رہے ہیں

خزاں کے قہقہے بتلا رہے ہیں
گل و گلزار تھکتے جا رہے ہیں

کہانی مختصر کرنا پڑے گی
سبھی کردار تھکتے جا رہے ہیں

کہیں کچھ ہے کمی اس کی تھکن ہے
کہیں انبار تھکتے جا رہے ہیں

گنہ گاروں کو کیا کہئے خدارا
کہ نیکو کار تھکتے جا رہے ہیں

بھنور میں جو ہیں ان کا پوچھئے مت
لگے جو پار تھکتے جا رہے ہیں

ہمیں مارا ہے یارو اس خبر نے
ہمارے یار تھکتے جا رہے ہیں

غمِ جاناں کہ دوراں ، کچھ تو ہوتا
یونہی بے کار تھکتے جا رہے ہیں

خرابی کا مداوا خاک ہو اب
کہ ذمہ دار تھکتے جا رہے ہیں

اتباف ابرک

کریں غیروں سے کیا شکوہ بھلا ہم
یہاں دلدار تھکتے جا رہے ہیں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button