معاشرتی کہانیاں

تیسری آنکھ

بڑی بھاگوان ہے میری بیٹی!!!!جس گھر میں بھی جائے گی بڑا نصیبوں والا ہو گا۔۔۔۔۔امی محبت پاش نظروں سے دیکھتی اورثانیہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی اپنی لاڈلی چھوٹی بیٹی پہ صدقے واری جا رہی تھیں اور ثانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو نجانے اس وقت خود کو کسی اور دنیا کی ہی مخلوق سمجھ رہی تھی امی کو اپنے تمام بچوں میں ثانیہ بے حد عزیز تھی اس کی پرورش انہوں نے ماں اور باپ بن کر کی تھی کیونکہ ثانیہ کے والد اس کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ایک حادثے میں انتقال کر گئے تھے اس کی تین بڑی بہنیں اور ایک بھائی تھا سب کی لاڈلی ثانیہ کو کبھی یہ احساس تو نہ ہونے دیا جاتا کہ اس کی زندگی میں باپ کے پیار اور ان کے نہ ہونے کی کمی ہے لیکن آخر ایک انتہائی اہم رشتے کی کمی اس کو دکھی کر دیتی تھی
صادقہ بیگم نے اپنے سب بچوں کی تربیت بہت احسن طریقے سے کی تھی وہ خود بھی ایک نیک اور دیندار خاتون تھیں اور اولاد کو بھی انہیں خطوط پر پروان چڑھایا تھا حکیم احمد علی کا خاندان نہ صرف حکمت کی وجہ سے مشہور تھا بلکہ دینداری اور ایک حد تک روحانیت سے لگاو بھی اس خاندان کی عزت و وقار کا باعث تھا لوگ حکیم احمد علی سے دوا لینے کے ساتھ ساتھ دم درود بھی کرواتے اور نذر و نیاز کا بھی اس گھرانے میں خاص اہتمام ہوتا
حکیم صاحب کا خاندان لجپال سرکار کی درگاہ سے بیعت تھا اور وہاں کے گدی نشین اکثر و بیشتر تشریف لایا کرتے تھے ان کے آنے پہ گھر میں خاص اہتمام ہوتا پورے گھر کو صاف ستھرائی کے ساتھ بھرپور سجایا جاتا نت نئے پکوان پکتے اور آس پڑوس کے لوگوں کو بھی دعوت دی جاتی ایک عید کا سا سماں ہوتا
حکیم صاحب کی وفات کے بعد صادقہ بیگم نے اس سلسلے کو ختم نہ ہونے دیا اور ان کے بچوں میں بھی یہی زوق و شوق برقرار رہا
دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا حصول بھی ان کے لیے لازمی تھا نمرہ آپی، صالحہ، معین بھائی سب ہی ماں کے ممدو معاون رہے اور ہر معاملے میں ہی ان کی تابعداری کی
“”امی۔۔۔۔ثانیہ صبح سویرے آٹھ کر۔نماز سے فارغ ہو کر ماں کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی ۔۔۔اس کے چہرے کا تفکر بتا رہا تھا کہ کوئی خاص بات ہے
“جی بچے۔۔۔۔۔کیا بات ہے؟؟
صادقہ بیگم۔۔جو تسبیح پڑھنے میں مشغول تھیں ثانیہ کی طرف متوجہ ہوئیں
“”امی مجھے لگتا ہے کچھ عجیب سا ہونے والا ہے۔۔۔۔مجھے رات بھر ایسے خواب آتے رہے جو بیان نہیں کر سکتی۔۔۔
اس کے لہجے سے خوف ٹپک رہا تھا
“”کیسے خواب؟؟۔
صادقہ بیگم بھی اس کی بات سن کر فکر ہو گئیں
“”بس امی۔۔۔کچھ برا ہونے والا ہے۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا ہے۔۔۔
ماں نے اس کی پریشانی اور خوف کو بھانپ تو لیا تھا اور خود بھی حیران و پریشان تھیں لیکن اس کی تسلی کےلئے اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور ثانیہ کو ساتھ لگا کر پیار کرنے لگیں
“لگتا ہے میری بیٹی رات کوئی ڈراونی کہانی پڑھتی رہی ہے۔۔۔۔یا پھر کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہو گا جس سے معدے میں تیزابیت ہوئی اور الٹے سیدھے خواب آنے لگے۔۔۔۔اللہ سے خیر مانگو۔۔۔۔ویسے بھی اس طرح کے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں
ماں کی باتیں سن کر ثانیہ کے چہرے پر اطمینان آ گیا
“”اچھا جائو۔۔۔جا کر دیکھو نمرہ آٹھ گئی ہے تو اس سے کہو مجھے چائے بنا دے۔۔۔
“جی امی۔۔۔۔۔۔ثانیہ مسکراہٹ اور اطمینان سے ماں سے گلے مل کر نمرہ کو دیکھنے چلی گئی لیکن صادقہ بیگم کو یکے بعد دیگرے ماضی کے واقعات یاد آنے لگے
حکیم صاحب کی وفات کے وقت جب لجپال شریف درگاہ کے سجادہ نشین ان کے گھر آئے تھے تو صادقہ بیگم کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس گھرانے اور ہونے والے بچے کےلئے خاص دعا کی تھی اس وقت ثانیہ ان کے پیٹ میں تھی۔۔۔حکیم صاحب کے جانے کے بعد اپنے آپ کو، گھر کو سمیٹنے کی تگ و دو میں صادقہ زیادہ تر عبادت میں مشغول رہتیں اور اللہ سے ہر وقت ہمت اور مدد مانگتیی آخر تین بچوں کی ذمہ داری اور زندگی کی گاڑی کو کھنچنے کے لیے ہمت چاہیے تھی
پھر ان کو ثانیہ کے بچپن کی باتیں یاد آنے لگیں
ایک دن موسم کافی خوشگوار تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی صادقہ نے صبح ہی کپڑے دھو کر چھت پر ڈال دیئے تھے اب فکر لاحق ہوئی کہ کہیں ہوا سے کپڑے اڑ نہ جائیں انہوں نے ثانیہ کو ساتھ لیا اور چھت سے کپڑے اتارنے گئیں
چونکہ نمرہ، صالحہ اور معین پڑھنے چلے جاتے تھے وہ اور ثانیہ گھر پر ہوتی تھیں تو وہ اس کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتیں۔۔۔کپڑے سمیٹتے ہوئے ان کی نظر چھت پہ ایک کونے میں کھڑی ثانیہ پر پڑی جو انتہائی محویت سے آسمان کو دیکھ رہی تھی
“ارے بچی!!!!!ادھر ایک کونے میں لگ کے کھڑی کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟
ماں کی آواز سن کر ثانیہ ایک دم چونکی۔۔۔آنکھوں میں حیرت کے جذبات لیے بولی
“”امی!!!!وہ دیکھیں آسمان کے اوپر بادلوں میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بات سن کر صادقہ بہت حیران اور متجسس ہوئیں!!!
“”ارے کہاں بیٹا؟؟؟پھر آسمان کی طرف کھوجتی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگیں لیکن انہیں کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
!!!ارے بچے۔۔۔۔۔تمہارا وہم ہے۔۔۔۔
لیکن ثانیہ اپنی بات پر قائم تھی
“”اچھا چلو نیچے چلیں، ،،،میں نے دودھ ابلنے رکھا ہے کہیں گر نہ جائے۔۔۔۔۔ماں بیٹی نیچے آ گئیں
یہ سب باتیں سوچ کر صادقہ پریشان سی ہو گئیں
“”چلو۔۔۔اللہ خیر کرے، ،،کہتی ہوئی دوبارہ تسبیح کرنے لگیں
کچھ دیر بعد نمرہ ماں کے لئے چائے لے آئی جس کو پینے کے بعد وہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئیں معین کسی ضروری کام سے شہر سے باہر گیا ہوا تھا اور اب کافی دیر ہو گئی تھی
“”صالحہ۔۔۔۔معین کچھ بتا کر گیا تھا کہ کب تک آ جائے گا؟؟؟
“”نہیں امی!!!بھائی بس یہی کہہ کر گئے تھے کہ ضروری کام ہے۔۔۔۔
“اچھا!!!صادقہ بیگم کے چہرے پر تفکر اور اطمینان کے ملے جلے تاثرات تھے
تھوڑی دیر بعد دروازہ زور زور سے پیٹنے کی آواز آئی
“””ارے بھئی کون ہے؟؟؟؟
صادقہ دروازہ کھولتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگیں
سامنے معین کا دوست کھڑا تھا
‘خالہ معین کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔۔۔۔۔
“کہاں؟؟؟؟کیسے؟؟؟؟
صادقہ ہذیانی انداز میں چلائیں۔۔۔۔
کیا ہوا میرے بچے کو؟؟؟وہ روتے ہوئے اس لڑکے سے پوچھنے لگیں
“خالہ وہ ادھر ہی اپنے شہر کے ہسپتال میں ہیں آپ فکر نہ کریں زیادہ چوٹیں نہیں آئیں آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو لینے آیا ہوں::
صادقہ فورا” اندر سے چادر لے کر اور بیٹیوں کو بتا کر ہسپتال کے لیے نکل پڑیں۔۔۔۔۔
اللہ نے معین کو بچا لیا تھا ورنہ حادثہ معمولی نہ تھا کچھ دن ہسپتال میں رہ کر وہ گھر آ گیا
وقت گزرتا چلا گیا اب صادقہ کو اپنے بچوں کی شادیوں کی فکر ستانے لگی ایک دن معین کو بٹھا کر کہنے لگیں۔۔
“دیکھو بیٹا۔۔۔۔میں بیوہ عورت ہوں۔۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ بچیوں کو بھی ان کے گھروں کی کر دوں اور تمہارے سر پر بھی سہرا دیکھ لوں۔۔۔
“جی امی!!!لیکن امی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نمرہ،صالحہ اور ثانیہ کی شادی کے بعد ہی آپ میرا گھر آباد کرنے کا سوچیں تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔
“چلو ٹھیک ہے۔۔۔جیسے تمہیں مناسب لگے۔۔۔حکیم صاحب کے بعد تم ہی تو میرا سہارا ہو۔۔۔اللہ میرے بچوں کے نیک نصیب کرے۔۔۔۔صادقہ کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔
ماں بیٹا دونوں بہتر رشتوں کی تلاش میں لگ گئے رشتہ داروں اور آس پڑوس سے کہہ سن کر کافی اچھے رشتے آنے لگے کیونکہ اس گھرانے کی شرافت، دینداری کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی اور مالی لحاظ سے بھی کوئی پریشانی نہ تھی۔۔کہتے کرتے نمرہ اور صالحہ کے لیے بہت اچھے رشتے مل گئے
ماں نے معین کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ پہلے نمرہ اور صالحہ کی شادی اکٹھی ہو گی اس کے بعد معین اور ثانیہ کی۔۔لہذا اسی تناظر میں نمرہ اور صالحہ کی رخصتی کی گئی اب ان دونوں کی باری تھی
آج کل ثانیہ کے لیے آیا ایک رشتہ زیر غور تھا، لوگ اچھے تھے دور پار کے رشتہ دار تھے ان کو حکیم صاحب کے خاندان کی لجپال شریف سے بیعت اور ثانیہ کے اوپر ان کی خاص نظر کرم کا بھی معلوم تھا چونکہ حکیم صاحب کی وفات کے بعد دم درود کا سلسلہ جاری رہا لیکن ثانیہ کے اس خاص پہلو کا صرف رشتہ داروں کو علم تھا صادقہ بیگم اس بات کو اس لیے چھپا کر رکھتیں کہ لڑکی ذات ہے لوگ نجانے کیا کیا باتیں گھڑ لیی۔۔لیکن رشتہ داروں سے یہ بات مخفی نہ تھی۔۔۔اب چونکہ وہ لوگ بھی اسی سلسلے سے بیعت تھے تو ثانیہ کے لیے وسیم احمد کے رشتے کو خاص اہمیت دی گئی
کچھ سوچ بچار اور باہمی صلاح مشورہ کے بعد ثانیہ کی شادی طے کر دی گئی اور اسی خاندان سے معین کے لیے بھی لڑکی پسند کر لی گئی صادقہ بیگم کی دعائیں رنگ لائیں اور ان کی ساری اولاد بیاہی گئی
ثانیہ وسیم احمد کی دلہن بن کر اس کے آنگن میں اتری
ثانیہ کے سسر حیات تھے جبکہ ساس وفات پا چکی تھیں ایک دیور تھا اس کی بیوی اور دو بچے۔۔۔ثانیہ اپنی ملنسار طبیعت کی وجہ سے جلد ہی ان میں گھل مل گئی تھی دو نندیں تھیں جو بیاہی ہوئی تھیں اور کبھی کبھار رہنے اور ملنے کے لیے آ جاتی تھیں چونکہ وسیم بہن بھائیوں میں بڑا تھا تو ثانیہ کی سب بہت عزت قدر کرتے تھے اور وہ بھی ان کا اسی طرح خیال رکھتی
سسرال والوں کے علم میں یہ بات تھی کہ ثانیہ پر لجپال شریف درگاہ والوں کی خاص نظر کرم تھی اور وہ لوگ جو حکیم احمد علی کی زندگی میں ان سے دم درود کروانے آتے تھے وہ ثانیہ کے پاس آنے لگے تھے۔۔۔
شادی کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کو جب ثانیہ کی شخصیت کے اس پہلو کا معلوم ہوا تو وہ بھی اپنے مسائل کے بارے میں جاننے اور دم کروانے کےلئے آنے لگے ثانیہ چہرہ شناس بھی تھی اور لوگوں کے ذہن کو پڑھ لینے کی خداداد صلاحیت رکھتی تھی صادقہ بیگم نے تو یہ تمام معاملات بہت حد تک عیاں نہ ہونے دئیے کہ لڑکی کنواری ہے لوگ نجانے کیا کیا باتیں بنائیں گے لیکن سسرال والوں نے ثانیہ پر کوئی روک ٹوک نہ کی
دم درود اور مسائل کا حل معلوم کرنے کےلئے آنے والے لوگ حسب توفیق کچھ دے دلا کر جاتے اور بعض تو اتنا کچھ لے آتے کہ ثانیہ خفیف ہو جاتی لیکن اس سب میں سسرال والے بہت خوش تھے بیٹھے بٹھائے اتنا آنے لگا تھا اور ثانیہ بھی ان سے کچھ چھپا کر نہ رکھتی دیورانی کی خدمت کے عوض وہ اس کو اور بچوں کو بہترین کپڑے لتے، ہر طرح کی آسائش دیتی
اسی عرصے میں ثانیہ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام درگاہ لجپال شریف کی بی بی صاحبہ کی پسند سے بہزاد رکھا گیا۔۔۔درگاہ کی بی بی صاحبہ اکثر ثانیہ کو اپنے پاس بلا بھیجتی تھی چونکہ وسیم اور اس کے گھر والوں کا اپنا درگاہ والوں سے خاص انس تھا وہ خوشی خوشی ثانیہ کو وہاں لے جاتا
بہزاد کی پرورش میں ثانیہ کی دیورانی نے اس کا مکمل ساتھ دیا وہ تو لوگوں کی بڑی تعداد میں آنے کی وجہ سے حد درجہ مصروف رہتی اور بہزاد زیادہ تر چچی اور چچا کے پاس ہوتا اب اس نے لوگوں کی طرف سے ملنے والی نذر و نیاز میں لجپال شریف درگاہ کے لیے باقاعدہ حصہ مقرر کر دیا تھا اور ایسا وہاں کی بی بی صاحبہ کے حکم سے ہوا کیونکہ بقول ان کے ثانیہ کی تیسری آنکھ۔۔۔جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے چہرے پڑھ لیتی ہے اور مسائل کے بارے میں جان کر حل بتاتی ہے وہ درگاہ شریف کے سجادہ نشین کی خاص نظر اور دعا سے اس کو ملی اور اس کی بدولت ملنے والے روپیہ پر درگاہ والوں کا بھی حق ہے چونکہ سسرال والے بھی ان کے معتقد تھے لہذا کسی کو اعتراض نہ ہوا
اب تو گھر پر بڑی بڑی محافل کا انتظام کیا جانے لگا اور درگاہ کے متولی اور گدی نشین ثانیہ کے گھر آتے پیر صاحب کی آمد کو خوب کیش کرایا جاتا لوگوں سے نذرانے اس آڑ میں بٹورے جاتے کہ جو بھی لنگر شریف میں جتنا زیادہ حصہ ڈالے گا اس کا مال اتنا ہی بڑھے گا
سادہ لوح لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے اب تو ثانیہ وہ پہلے والی ثانیہ نہ رہی تھی جو لوگوں کی ہمدردی میں بغیر کچھ لئے دئیے ان کو دم درود بھی کرتی اور اپنی تیسری آنکھ کو اللہ کا انعام سمجھ کر لوگوں کے مسائل سے نکلنے میں ان کی مدد کرتی حکیم احمد علی اور صادقہ بیگم کی قابل فخر اور بھاگوان بیٹی اب متکبر اور لالچی ثانیہ بن چکی تھی
کہتے ہیں کہ تکبر تباہی ہے۔۔۔یہ تکبر ہی تھا جس نے انسان کو جنت سے نکلوایا اور فرعون کو ڈبو دیا۔۔۔کبھی نہیں سنا کہ انسان کو عاجزی لے ڈوبی ہمیشہ اس کا تکبر ہی اس کو لے ڈوبتا ہے
ایسا ہی کچھ ثانیہ کے ساتھ بھی ہوا اپنے آپ کو منوانے اور درگاہ والوں کی خدمت میں پیش پیش رہنے میں وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہوتی گئ۔۔۔۔وہ زمہ داریاں جو بطور بیوی، بطور ماں اور بطور بہو اس پر عائد تھیں وہ اس کےلئے بے معنی تھی چچا اور چچی کی گود میں پلنے والا بہزاد ماں کے لمس کو ترستا رہتا لیکن سارا دن لوگوں کے ہجوم میں گھری ثانیہ کو شائد اس کا وجود نظر ہی نہ آتا اس کے خیال میں چچی سارا کچھ تو بہزاد کےلئے کر دیتی تھی اور بدلے میں ثانیہ دیورانی کی تمام نہیں تو بہت سی ضروریات پوری کر دیتی تھی
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی بہزاد کو ماں کی توجہ چاہیے تھی ماں کا اس کےلئے وقت چاہیے تھا وہ وقت جس میں وہ اپنی ہر بات ماں سے کرے اپنے دوستوں کی، پڑھائی کی، اپنی مصروفیات اور مشاغل ،اپنی الجھنیں اور پریشانیاں بتائے لیکن ماں اس کو اپنے آس پاس کہیں نظر نہ آتی وہ تو ہمیشہ لوگوں میں گھری رہتی۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ثانیہ کے رویے میں آنے والے تکبر اور رعونت نے اس کے قریبی رشتوں کو بھی اس دور کرنا شروع کر دیا۔۔۔اس کی دیورانی جو اس کے بچے کو بھی سنبھالتی اور آئے گئے کی بھی خاطر تواضع کرتی اس کے رویے سے شاکی رہنے لگی
ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ شائستہ، اس کی دیورانی کے میکے سے کچھ لوگ دم درود کےلئے آنے۔۔
“”بھابھی!!!یہ میرے ماموں کی بہو اور اور ان کی امی آئی ہیں۔۔۔انہوں نے ذرا جلدی واپس جانا ہے تو ان کا مسئلہ سن لیں
–کمرہ عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور ثانیہ باری سب کو بلا کر مسئلہ پوچھ رہی تھی، ،،ایک دم سے شائستہ کو غصیلی آنکھوں سے دیکھ کر بولی
“”میں کسی کے باپ کی ملازم یا کسی کی ملکیت نہیں ہوں۔۔۔ان کو بٹھا دو۔۔۔جب باری آئے گی میں بلا لوں۔۔۔
بیچاری شائستہ حیران اور ہکا بکا رہ گئی۔۔اس نے انتہائی شرمندگی اور دکھ سے بھابھی کی طرف دیکھا ۔۔۔اس کے ساتھ آنے والی رشتہ دار عورتیں بھی ثانیہ کے رویے پر دم بخود تھیں۔۔۔کمرے میں موجود ہر عورت کی نگاہ شائستہ پر تھی
صورتحال کو سمجھتے ہوئے اور مزید خفگی سے بچنے کے لئے شائستہ ان خواتین کو ساتھ لے کر باہر آ گئی
اس دن کے بعد شائستہ کی قدم قدم پر ذلت کو ثانیہ نے اپنا معمول بنا لیا تھا چونکہ بہزاد اب بڑا ہو گیا تھا تو یوں لگتا تھا کہ شائستہ اور اس کے بچے ثانیہ کو فالتو مال اور بوجھ لگنے لگے تھے
آخر وہ وقت آ گیا جب شائستہ کی ہمت جواب دے گئی اس کا شوہر بھی تمام باتوں سے واقف تھا لہذا اس نے اپنے بھائی اور باپ سے علیحدہ گھر میں منتقل ہونے کی اجازت چاہی کہ چلو جو مقدر میں ہے روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن عزت سے تو رہیں گے
انہوں نے چار و ناچار اس کو علیحدہ گھر میں جانے کی اجازت دے دی۔۔۔وسیم کے والد بھی اپنی بہو شائستہ کی خدمت اور قربانیوں کے گرویدہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ جانے کا ارادہ کر بیٹھے
آہستہ آہستہ ثانیہ کی نندوں نے بھی آنا بند کر دیا ان کےلئے تو وہی میکہ تھا جہاں ان کا باپ تھا
اب گھر میں وسیم، ثانیہ اور بہزاد تھے یا پھر آنے جانے والے لوگ۔۔۔۔اس ساری صورتحال سے ثانیہ کو کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ اس نے کام کےلئے ملازمہ رکھ لی اور شوہر اور بیٹا ویسے بھی اس کی زندگی کی ترجیح نہیں تھے
رفتہ رفتہ وسیم بھی اس سے کھنچنے لگا کیونکہ اس کے پاس وسیم کےلئے وقت ہی نہ تھا۔۔۔ایسا وقت جس میں بیٹھ کر میاں بیوی زندگی کے معاملات پر بات کریں۔۔۔اپنے بیٹے کے مستقبل کے حوالے سے کچھ کہیں سنیں۔۔۔کچھ ماضی کی۔۔۔کچھ حال کی بات کریں
۔۔۔لیکن درگاہ والوں کی منظور نظر اور اسی خیال میں متکبر ہوتی ثانیہ کو کچھ دکھائی ہی نہ دیتا تھا
۔۔۔۔ابو جان!!!میں اب آگے پڑھنے کے لیے کسی بڑے شہر میں جانا چاہتا ہوں۔بہزاد نے اپنے باپ سے کہا
کیوں بیٹا؟—یہاں بھی تو اچھے ادارے ہیں۔۔۔تم یہیں داخلہ لے لو۔۔۔
بہزاد میٹرک کے بعد کسی اور شہر میں داخلہ لینا چاہتا تھا جس کےلئے اس نے ضد لگا رکھی تھی
وسیم نے ثانیہ سے بات کی
“”بیٹا میں اور تمہارے ابو اکیلے رہ جائیں گے۔۔۔تم ہماری اکلوتی اولاد ہو۔۔۔۔یہاں بھی اچھے ادارے ہیں۔۔۔میری جان۔۔۔یہیں پڑھ لو تا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہو۔۔۔ثانیہ نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی
۔۔۔۔اکیلے؟؟؟۔۔۔۔واہ امی جان!!! بہزاد استہزائیہ انداز میں بولا۔۔۔۔۔اس کے لہجے میں چھپا طنز وسیم سے نہ چھپ سکا لیکن وہ خاموش رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بہزاد چچا، چچی، ان کے بچوں اور دادا کے چلے جانے سے تنہائی کا شکار ہو گیا تھا اور اس اکیلے پن سے راہ فرار چاہتا تھا
ثانیہ نے مدد طلب نظروں سے شوہر کی طرف دیکھا لیکن وسیم نے دانستہ  اس سے نظریں چرا لیں بے بسی ثانیہ کے چہرے پر عیاں تھی
پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا بہزاد کسی طور پر اپنی ضد چھوڑنے پر تیار نہ تھا
“”بیٹا!!!ایک دن ثانیہ نے بہزاد کو پاس بٹھا کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے سمجھانا چاہا۔۔۔۔بہزاد کچھ دیر تو ماں کی بات سنتا رہا پھر ایک دم آٹھ کر ثانیہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔۔۔
امی جان۔۔۔۔اس وقت آپ کی یہ محبت کہاں تھی جب بچپن میں مجھے روتا بلکتا چچی جان کی گود میں پھینک کر آپ گھر آئی عورتوں کے جھرمٹ میں گھری بیٹھ جاتی تھیں؟؟؟؟اس وقت آپ کا یہ لاڈ کہاں تھا جب میں سکول سے واپس آتا تو میں ترستا رہتا کہ میری ماں کو وقت ملے تو میں اپنے دوستوں کی باتیں بتائوں، اپنی سارا دن کی مصروفیات ،،دوستوں کے ساتھ مل کر کی گئی شرارتیں بتا کر ہم ماں بیٹا لطف اندوز ہوں ۔۔۔اپنی پڑھائی کے بارے میں بات کروں کہ امی جان مجھے یہ مضمون تو اچھی طرح آتا ہے۔۔۔اس مضمون میں مجھے مشکل پیش آتی ہے۔۔۔۔
میرے دوست اپنی ماں کے ہاتھ کی بنائی کھانے پینے کی اشیاء لنچ میں لاتے لیکن میرے پاس تو آپ کا بنایا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔جو چچی نے دیا، کھا لیا۔۔۔۔جو انہوں نے پہنایا۔۔پہن لیا۔۔۔کیسے مائیں اپنے بچوں کے ناز نخرے اٹھاتی ہیں۔۔۔۔۔کس طرح بچے ماں سے فرمائش کرتے ہیں۔۔۔میں نے تو بس سن رکھا ہے۔۔۔۔۔میں تو ماں کے ہوتے ہوئے بھی بن ماں کے بچے کی طرح پلا بڑھا ہوں امی۔۔۔۔۔
بہزاد کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔۔۔اس کے لہجے کا کرب ثانیہ کا دل چیر رہا تھا۔۔۔وہ ایک لمحے کے لئے رکا خود کو سنبھالنے کے لیے۔۔۔۔پھر بولا
۔۔۔لیکن کوئی بات نہیں۔۔آپ درگاہ والوں کی خدمت کریں۔۔۔لوگوں کے کام آئیں۔۔۔لیکن پلیز مجھے معاف کیجئے گا۔۔۔۔میں اپنی زندگی کی سمت خود طے کروں گا۔۔۔۔
یہ سب حالات ثانیہ کےلئے غیر متوقع تھے اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بہزاد کی زندگی میں اتنی محرومیاں ہیں اور ماں کے لئے اتنے شکوے۔۔
اب ثانیہ کو ہوش آیا جب اکلوتی اولاد سامنے کھڑی اس سے لاتعلقی کا اعلان کر رہی تھی۔۔۔نعمتوں کی قدر نہ کریں تو وہ چھن جاتی ہیں۔۔۔اللہ دے کر آزماتا ہے اور ناقدری پر چھین لیتا ہے۔۔۔
،،نہیں!!!اپنے اندر سے اٹھنے والی آوازیں ثانیہ کو لرزا رہی تھیں۔۔۔۔میرا بچہ۔۔!!!میرا بہزاد۔۔۔۔میں کبھی اس کو خود سے دور نہیں ہونے دوں گی
وہ روتے، ،چیختے ہوئے اپنے بیٹے سے لپٹ گئی
کبھی نہیں سنا کہ انسان کو عاجزی لے ڈوبی ہمیشہ تکبر ہی لے ڈوبتا ہے اور انسان۔۔۔۔جس کا ماضی، حال، مستقبل سب مٹی ہو اس کو تکبر زیب نہیں دیتا۔۔۔لیکن ثانیہ یہ سب باتیں بھول گئی تھی
تیسری آنکھ تو خدا کی طرف سے انعام تھی لیکن اس علم اور انعام کو اس نے ذاتی خوبی سمجھ لیا تھا اور متکبر بن بیٹھی۔۔۔بھلا تکبر بھی کسی علم کو پھلنے پھولنے دیتا ہے۔۔۔
ماں کو روتے، بلکتے دیکھ کر بہزاد کا دل پسیج کیا دونوں ماں بیٹا گلے لگ کر خوب روئے۔۔۔بہزاد کا دل بھی ہلکا ہو گیا تھا ثانیہ کے سارے قصور بہزاد کے بولے گئے لفظوں میں سموئے تیر کی طرح اس کے آر پار ہو رہے تھے
وسیم آگے بڑھا اس نے ثانیہ اور بہزاد کو گلے لگایا
!!!ثانیہ۔۔۔۔تکبر چاہیے دولت کا ہو۔طاقت کا ہو، رتبے کا ہو، حیثیت کا ہو، حسن کا ہو، علم کا ہو، حسب و نسب کا ہو حتی کہ تقوی کا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔انسان کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے۔۔خدا اپنے بندوں کو نوازتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کو آزماتا بھی ہے
ثانیہ انتہائی تاسف اور شرمندگی سے شوہر کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔بہزاد نے آگے بڑھ کر ماں کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے ۔۔۔ثانیہ کے چہرے پر اطمینان آ گیا۔۔اس کے وجود کی ڈولتی ہوئی کشتی کو جیسے مضبوط سہارا مل گیا تھا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button