اقتباسمزاح کے رنگ

حسن سلوک

1960 کی دہائی میں جرمن جیل میں یہ واقعہ پیش آیا ، قیدیوں کو جیل کے گارڈز کی طرف سے ظلم اور ہر لحاظ سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا –
قیدیوں میں ایک شمٹ نامی قیدی بھی شامل تھا جس کو طویل مدت تک کے لیے سزا سنائی گئی تھی لیکن اس قیدی کو جیل میں اچھی مراعات مل رہی تھیں اور محافظ اس کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آیا کرتے تھے –
جس کی وجہ سے باقی قیدی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ وہ ان محافظوں کا ایک ایجنٹ ہے – شمٹ نے قیدیوں کو یقین دلانے کے لیے حلف اٹھایا کہ وہ ان جیسا ہی ایک قیدی ہے اور اس کا سیکیورٹی سروسز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

“لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہ کیا ، چنانچہ قیدیوں نے کہا ، “ہم جاننا چاہتے ہیں کہ جیل کے محافظ آپ کے ساتھ ہم سے مختلف سلوک کیوں کرتے ہیں؟”

شمٹ نے قیدیوں سے کہا: “ٹھیک ہے ، مجھے یہ بتائیں کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ہفتہ وار جو خطوط لکھتے ہیں اس میں کیا لکھ کر بھیجتے ہیں؟”
سب نے ایک زبان ہوکر کہا: ” ہم ان لعنتی محافظوں کے ہاتھوں جیل میں ہم پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کی داستان کے بارے میں لکھتے ہیں-“

شمٹ نے قیدیوں کو جواب میں کہا: میں ہر ہفتے اپنی بیوی کو خط لکھتا ہوں اور خط کی آخری سطروں میں جیل کے محافظوں اور محسنوں اور ان کے حسن سلوک کا ذکر کرتا ہوں اور بعض اوقات اپنے خطوط میں کچھ محافظوں کے نام بھی لکھ دیتا ہوں اور ان کی تعریف بھی کردیتا ہوں.
قیدیوں نے شمٹ کو جواب دیا: اس سب کا کیا لینا دینا جب کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ یہاں بہت ظلم کیا جاتا ہے؟
شمٹ نے کہا کہ ذہین لوگو ہمارے تمام خطوط اور پیغامات جیل سے اس وقت تک باہر نہیں بھیجے جاتے جب تک کہ محافظ ان کو خود پڑھ نہ لیں اور اس طرح وہ ہر چھوٹی بڑی بات کا پتہ لگا لیتے ہیں اور خطوط میں درج باتوں کو بدل بھی دیتے ہیں –
اگلے ہفتے قیدیوں کو یہ دیکھ کر حیرت سے شدید دھچکا لگا کہ تمام جیل گارڈز نے قیدیوں کے ساتھ پہلے سے بھی کہیں زیادہ بدترین سلوک کیا ، حتی کہ شمٹ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا اور اس کے ساتھ جیل کا عملہ نہایت سختی سے پیش آیا ۔
کچھ دن بعد شمٹ نے قیدیوں سے پوچھا: تم نے اس ہفتے کے خطوط میں ایسا کیا لکھ دیا تھا ؟

سب نے جواب میں کہا : ہم نے لکھا تھا کہ شمٹ نے ہمیں ملعون محافظوں کو دھوکہ دینے اور ان کا اعتماد اور یقین حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ سکھایا ہے – یہ سن کر شمٹ نے دکھ کے مارے اپنے گال پیٹ لیے اور اپنے بال پاگلوں کی طرح نوچنے شروع کردیے…

دوسروں کی مدد کرنا اچھا ہے، لیکن یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ آپ جس شخص سے بات کر رہے ہیں وہ کس فطرت کا مالک ہے؟
جرمن ادب
تحریر: موسیٰ پاشا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button