اقتباس

حضرت شاہ رکن عالم رح کی وفات

حضرت شاہ رکن عالم رح کی وفات :-
3 جنوری 1335ءکو حضرت شاہ رکن عالم رح کا انتقال ہوا تو دادا حضرت بہاﺅالدین ذکریاؒ کے قدموں میں دفن کر دیا گیا‘ آپ کی تدفین کے چند دن بعد حضرت بہاﺅالدین ذکریاؒ شیخ صدر الدین محمد کے خواب میں آئے اور فرمایا ” آپ نے قطب الاقطاب کو میری پائینتی میں دفن کر دیا‘ مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے‘ آپ انہیں دوسرے مقبرے میں دفن کریں تا کہ میں آرام سے رہ سکوں“ حکم واضح تھا‘ ملتان کے اولیاءنے دائیں بائیں دیکھا‘ سامنے غیاث الدین تغلق کا مقبرہ تھا‘ یہ مقبرہ تعمیر اور عقیدت کی عظیم داستان تھا‘ غیاث الدین تغلق دیپال پور کا صوبیدار تھا‘ دیپالپور ہندوستان کی بڑی چھاﺅنی تھی‘ غیاث الدین تغلق نے زندگی میں اپنا مقبرہ بنوایا‘ مقبرے کی تعمیر کے دوران تغلق نے ایک ایک پیسہ اپنی گرہ سے لگایا اور یہ رقم سو فیصد حلال تھی‘ یہ ہندوستان کی خوبصورت ترین عمارت تھی‘ یہ مشرق میں 260 فٹ تک پھیلی تھی‘ مغرب میں 213 فٹ تھی‘ شمال میں 283 فٹ تھی اور جنوب میں اس کی چوڑائی 283 فٹ تھی‘ یہ ہشت پہلو عمارت قطر میں 49 فٹ تھی‘ دیواریں عمودی تھیں‘ زمین سے اونچائی 160 فٹ تھی‘ عمارت تین منزلہ تھی‘ اوپر وسیع گنبد تھا‘ یہ گنبد ستونوں کے بغیر بنایاگیا‘ دیواروں میں لکڑی کے شہتیر لگائے گئے اور شہتیروں کے درمیان پتھروں کی چنائی کی گئی‘ مقبرے پر ملتان کی روغنی ٹائلوں کا کام تھا‘ آیات بھی کندا کی گئیں اور پچی کاری کا کام بھی ہوا‘یہ مقبرہ فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے
‘ غیاث الدین تغلق اس مقبرے میں دفن ہونا چاہتا تھا لیکن دلی کے تخت پر قطب الدین مبارک شاہ نے قبضہ کر لیا‘ یہ ہندوستان کی تاریخ کا مکروہ ترین کردار تھا‘ ہم جنس پرست تھا‘ ہندو لڑکے سے روزانہ شادی کرتا تھا‘ ایک دن دلہن بنتا تھا اور دوسرے دن دلہا‘ عمائدین سلطنت روز تحفے تحائف لے کر شادی میں شریک ہوتے تھے‘ معشوق لڑکے نے ایک دن اسے قتل کر دیا اور خسرو پرویز کے نام سے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا‘ اس نے نعوذ باللہ قرآن مجید کے تمام نسخے جمع کئے‘ ان کی کرسیاں بنوائیں اور درباریوں کو ان پر بیٹھنے کا حکم دے دیا‘ وہ ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا‘ پورے ملک میں غیاث الدین تغلق واحد شخص تھا جو مسلمانوں کو اس ظالم شخص سے رہائی دلا سکتا تھا‘ دلی کے مسلمانوں نے تغلق سے اپیل کی‘ تغلق دلی پہنچا‘ مسلمانوں کو ظالموں سے نجات دلائی‘ واپس آنے لگا تو دلی کے لوگ قدموں میں گر گئے‘ وہ مجبور ہو گیا اور یوں تغلق حکومت کی بنیاد پڑ گئی‘ وہ پوری زندگی لڑتا رہا یہاں تک کہ تغلق آباد میں کھانا کھا رہا تھا‘ محل کی چھت گری اور وہ چھت کے نیچے دفن ہو گیا‘ غیاث الدین تغلق کی میت کو ملتان پہنچانا مشکل تھا چنانچہ اسے دلی میں دفن کر دیا گیا‘ ملتان کا مقبرہ خالی رہ گیا‘ آپ حسن اتفاق ملاحظہ کیجئے‘ غیاث الدین تغلق کا صاحبزادہ اور ہندوستان کا بادشاہ فیروز شاہ تغلق عین اس دن سندھ سے واپس دلی جا رہا تھا جب وہ خواب دیکھا گیا‘ وہ ملتان میں رکا‘ ملتان کے عمائدین نے اسے حضرت بهاول الدین زکریا کا خواب سنایا‘ وہ اٹھا‘ عمائدین کے ساتھ قبرکشائی کی‘ حضرت شاہ رکن عالمؒ کے جسد مبارک کو کندھا دے کر والد کے خالی مقبرے تک لایا اور اپنے ہاتھوں سے ان کی تدفین کر دی‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ یہ مقبرہ مقبرہ نہیں رہا‘ یہ مزار بن گیا‘ یہ مزار دنیا بھر میں ملتان کی پہچان بھی ہے‘ دنیا بھر کی کتابوں میں جہاں بھی ملتان کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار کی تصویر شائع ہوتی ہے . اس مزار کی جسے غیاث الدین تغلق نے اپنے لئے بنوایا لیکن اسے یہاں دفن ہونے کی اجازت نہ ملی اور ہندوستان کی عظیم عمارت حضرت شاہ رکن عالمؒ کے نام لکھ دی گئی۔ اللہ تعالیٰ موت کے بعد صرف اپنے چاہنے والوں کو شناخت عنایت کرتا ہے یا پھر ان لوگوں پر مہربانی فرماتا ہے جو اس کی مخلوق کےلئے مفید ہوتے ہیں ‘ شاہ رکن عالمؒ اللہ تعالیٰ کو پسند تھے لہٰذا انہیں اس مقبرے میں جگہ عنایت ہو گئی جو بادشاہ نے اپنے لیے تعمیر کرایا تھا‘آپ کا نام آج بھی سلامت ہے‘ لوگ آج بھی عقیدت کے ساتھ گردن جھکا کر آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں جبکہ غیاث الدین تغلق کا نام صرف کتابوں میں رہ گیا‘وہ صرف قصہ بن کر رہ گیا‘ یہ عبرت کی نشانیاں ہیں اور انسان ان نشانیوں سے کچھ سیکھنا چاہے تو یہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن انسان بھی اللہ تعالیٰ کی کتنی عجیب مخلوق ہے ‘یہ اپنے ہاتھوں سے دوسرے انسانو ں کو دفن کرتا ہے مگر یہ اس کے باوجود خود کو ناگزیر سمجھتا ہے
،
جاوید چوہدری۔ (زیرو پوائنٹ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button