شاعری

خدشہ۔۔۔۔

خدشہ

یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیارِ یمن کے سرخ عقیق
یہ آئینے سی جبیں ، سجدہ گاہِ لیل و نہار

یہ بے نیاز گھنے جنگلوں سے بال ترے
یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا رنگ گالوں پر
یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوئے ابرو
کمند ڈال رہے ہیں میرے خیالوں پر

یہ نرم نرم سے ہاتھوں کا گرم گرم سا لمس
گداز جسم پہ بلور کی تہوں کا سماں !
یہ انگلیاں یہ زمرد تراشتی شاخیں !
کرن کرن ترے دانتوں پہ موتیوں کا گماں

یہ چاندنی میں دھلے پاؤں جب بھی رقص کریں
فضا میں ان گنے گھنگرو چھنکنے لگتے ہیں
یہ پاؤں جب کسی رستے میں رنگ برسائیں
تو موسموں کے مقدر چمکنے لگتے ہیں !!

تری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
مزاجِ گردشِ دوراں بھی لڑکھڑا جائے
تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے

ترا خیال ہے خوشبو، ترا لباس کرن!
تو خاک زاد ہے یا آسماں سے اتری ہے؟
میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتا ہوں
یہ موجِ رنگ زمیں پر کہاں سےاتری ہے؟

میں کس طرح تجھے لفظوں کا پیرہن بخشوں؟
مرے ہنر کی بلندی تو سرنگوں ہے ابھی!
ترے بدن کے خد و خال میرے بس میں نہیں
میں کس طرح تجھے سوچوں، یہی جنوں ہے ابھی

ملے ہیں یوں تو کئی رنگ کے حسیں چہرے!
میں بے نیاز رہا موجۂ صبا کی طرح !!
تری قسم تری قربت کے موسموں کے بغیر
زمیں پہ میں بھی اکیلا پھرا خدا کی طرح

مگر میں شہرِ حوادث کے سنگ زادوں سے
یہ آئینے سا بدن کس طرح بچاؤں گا؟
مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے کرب سمیت
میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا

مجھے یہ ڈر ہے کہ تیرے تبسموں کی پھوار
یونہی وفا کا تقاضا ، حیا کا طور نہ ہو؟
ترا بدن، تری دنیا ہے منتظر جس کی
میں سوچتا ہوں مری جاں وہ کوئی اور نہ ہو

میں سوچتا ہوں مگر سوچنے سے کیا حاصل؟
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور

محسن نقوی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button