مضامین

خوف کیا ہے؟

فطرت کی فطرت میں پائے جاتے والے جذبات، احساسات اس کی شخصیت کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، انسان کی سوچ اور عمل ان جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں پیار، محبت، غصہ، نفرت، خوف، ڈر یہ تمام احساسات اور جذبات انسان کی شخصیت کی اساس ہیں
انہیں احساس و جذبات میں سے خوف ایک نمایاں اور مضبوط عنصر ہے جو انسان کی سوچ کا رخ بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے جیسے غم، خوشی، ہنسنا، رونا ہمارے جذبات کو ظاہر کرتے ہیں اسی طرح خوف بھی ایک مضبوط احساس اور ہر ایک کی شخصیت کا لازمی جزو ہے
خوف دو طرح کا ہوتا ہے ایک شعوری اور دوسرا لا شعوری۔۔ہر انسان کو ہی دونوں طرح کے خوف زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر گھیرے میں لے لیتے ہیں جیسے کوئی بھی انسان اپنے آپ کو خوش رکھنے کا فن خود سے جانتا ہے، کسی انسان کو کسی ایسی بات پہ شدید غصہ آ سکتا ہے کہ جس پر اس کی جگہ کوئی اور بالکل نارمل رویہ رکھے گا۔۔۔۔یا کسی انسان کو ذرا سی بات بہت دکھی کر دے گی اور کوئی دوسرا اسی بات کو ہنس کر ٹال دے گا ایسے ہی خوف میں بھی ہر انسان مختلف طریقے سے متاثر ہو گا
اگر ہم شعوری خوف کی بات کریں تو یہ خوف تو تقریبا ہر انسان کی شخصیت میں ہی موجود ہوتا ہے شعوری خوف میں کوئی اس وقت مبتلا ہو گا جب وہ چیز یا وہ صورتحال اصل حالت میں سامنے نظر آ رہی ہو کوئی خطرہ وغیرہ
مثال کے طور پر جنگ کا خطرہ، ایکسیڈنٹ، بیماری یا پھر کسی جانور سے خطرہ یہ وہ چیزیں ہیں جو ظاہری حالت میں نظر آ رہی ہیں مثلا اکثر آپ نے دیکھا ہو گا کہ دوکانوں کے باہر پہرے دار بندوق لے کر بیٹھے ہوتے ہیں یا گھروں کے باہر گن مین ہوتے ہیں یا پھر اگر آپ کسی جیل کے سامنے سے گزرے ہوں تو ایک سپاہی چھت پر ہاتھ میں ہتھیار تھامے چوکس ہو کر بیٹھا ہو گا ۔۔۔۔۔ان سب مثالوں میں چونکہ ظاہری خطرہ موجود ہے لہذا وہاں خوف کا ہونا شعوری ہو گا
اسی طرح کسی کو کوئی سیریس بیماری لاحق ہے تو اس سے خوف میں مبتلا رہنا بھی شعوری ہے اگر آپ کہیں جا رہے ہیں سامنے کوئی حادثہ ہوا ہے تو یہ صورتحال آپ کو خوف زدہ کر دے گی یا پھر جیسے کسی جانور سے خوف کہ حملہ نہ کر دے جیسے شیر سے خوف تو ہر انسان کو ہی محسوس ہوتا ہے
خوف کی یہ تمام شکلیں شعوری قسم کے خوف سے تعلق رکھتی ہیں اسی طرح خوف کی دوسری قسم لا شعوری خوف ہے جس میں بظاہر تو اس چیز کا وجود نہیں ہوتا لیکن وہ آپ کو خوفزدہ کر رہی ہوتی ہے اس قسم کے خوف کا تعلق ہمارے لا شعور، مشاہدے اور سوچ کے زاویے سے ہے۔۔ہمارے لا شعور میں موجود اندیشے ہمیں خوف میں مبتلا کرتے ہیں مثلا ایک وقت میں ہم نے کسی کو مصیبت میں گھرا ہوا دیکھا اس کو دلاسہ، تسلی دی، اس کی مدد کی یا پھر وہ اپنی یا کسی اور کی کوشش سے مصیبت سے نکل گیا اب وقتی طور پر تو ہم اس صورتحال کو اہمیت نہیں دیں گے لیکن وہ مشاہدہ ہمارے لاشعور میں جا کر بیٹھ جائے گا کہ فلاں کے اوپر یہ وقت آیا تھا اور پھر یہ سوچ اور وسوسے لاشعور سے نکل کر ہمیں خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں
اصل میں ہمارے اندیشے ہی ہیں جو لاشعوری خوف کی وجہ ہیں کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے اور یہ اندیشے ہر عمر کے افراد کو پریشان کرتے ہیں
مثال کے طور پر ایک طالب علم کو پڑھائی میں ناکامی یا مستقبل کا خوف رہتا ہے یا امتحان میں کامیابی کا حصول، منزل مقصود پر پہنچنے کے حوالے سے فکریں۔۔یہ سب لاشعوری خوف ہیں
اسی طرح ماں باپ اپنی اولاد کی طرف سے فکر مند رہتے ہیں کہ بچے صحیح طرح سے پڑھ لکھ جائیں اچھی شخصی خوبیوں کے مالک ہوں، بری صحبت میں نہ پڑیں ۔۔۔تو یہ سب اندیشے زیادہ شدت اختیار کر کے خوف بن جاتے ہیں
بڑھاپے کی زندگی کے اپنے خوف ہوتے ہیں کہ نجانے کوئی سنبھالے گا بھی یا نہیں، ،کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جائیں۔۔۔کہیں کسی پر بوجھ نہ بن جائے وغیرہ وغیرہ
اب چونکہ ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے تو لاشعوری خوف سے نکلنا بھی کوشش کے ذریعے ممکن ہے اس کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حکمت عملی اپنانی چاہیے
سب سے پہلے تو اپنا توکل مضبوط کریں اس چیز کو ذہن نشین کر لیں کہ مارنے والے سے بچائے والا زیادہ طاقتور ہے اور اب تک کچھ نہیں ہوا تو آئندہ بھی نہیں ہو گا
دوسرے نمبر پر مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کی کمپنی میں رہیں، جب اندیشے اور خیالات زور پکڑیں تو زیادہ دیر اکیلے بیٹھنے سے اجتناب کریں لوگوں سے میل جول رکھنے سے آپ کی سوچ کا زاویہ بدل جائے گا
اندیشے اور وہم مایوسی کو جنم دیتے ہیں جس کے بعد خوف انسان کو گھیرے میں لیتا ہے اپنے واہموں کو جھٹکنے کا فن سیکھیں اس بات کا یقین خود کو دلائیں کہ مثبت سوچ مثبت حالات کی طرف لے جاتی ہے اور منفی سوچ سوائے مایوسی، ناامیدی اور خوف کے سوا کچھ نہیں دیتی
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اس کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر وہ انسان ہی کیا جو اپنے رب پر بھروسہ نہ کرے اور ان دیکھے، انجانے وسوسوں میں گھر کر ،خوف میں مبتلا رہ کر اپنی زندگی خود ہی اجیرن کیے رکھے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button