مضامین

دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

کٹ ہی گئ جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے

تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

تیرے لئے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹہر گئے

تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا

دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی اور پیاس کا

صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خاک تھا ہم بھی غبار خاک تھے

وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں

کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا

ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹہر گئے

بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا

وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے

تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے

وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے

وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button