اقتباس

رانجھا راضی۔۔۔۔۔۔

رانجھـــــــاراضــــی کـــــــــرنا،
اس بات کا کیا مطلب ہے۔۔

بابا جی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ پتر کبھی رانجھا راضی کیا ہے تو نے؟
میں نے حیرانگی سے بابا جی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ
بابا جی یہ رانجھا راضی کرنا کیا ہوتا ہے ؟
میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال پوچھ لیا۔

بابا جی نے میرے سر کے بالوں کے خراب کرتے ہوئے کہا
“تو وی جھلا ہی ریں گا ہمیشہ!
پر بات تو تُو بھی ٹھیک ہی کر رہا ہے
پُتر ،تیرا تو کوئی محبوب ہی نہیں ہے
تو تُو نے رانجھا راضی کہاں سے کرنا.”

پھر بابا جی مجھے اپنے پاس بٹھا کے کہنے لگے کہ…..
“پتر رانجھا محبوب کو کہتے ہیں جس سے ڈھیروں پیار کیا جائے ، جس کے آگے تیری اَنا وی سر نہ چُکے. جو تجھے جب بھی کچھ کہے تو منہ سے بس بسم اللہ نکلے اور جس کے لئے زبان پہ کبھی انکار نہ آئے وہ رانجھا ہوتا ہے۔”

بابا جی کچھ دیر کے لئے چپ سے ہو گے تو مجھے بے چینی ہونے لگ گئی کہ بابا جی کچھ بول کیوں نہیں رہے. پھر بابا جی جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے بولے:
“مگر پتر ایک بات بتاؤں ، ہمیں رانجھا راضی کرنا آتا ہی نہیں ہے، ہم تو ایویں جتاتے رہتے ہیں کہ ہم رانجھے کے ہیں اور رانجھا ہمارا ہے. ہم رانجھا بنا تو لیتے ہیں۔”

“مگر محبت نبھانا بھول جاتے ہیں… ہم بس چُوری کھانے والے مجنوں بنے رہتے ہیں اور جب محبت امتحان لینے لگتی ہے تو ہم شکوے شکایتوں پہ اتر آتے ہیں.
ہم الٹا رانجھے سے گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں محبت میں ملا ہی کیا ہے؟”

بابا جی تواتر سے بولتے جا رہے تھے اور میں پوری دلجوئی سے ہر بات کو سن رہا تھا.
پھر بابا جی بولے کہ:
“رانجھا راضی توحضرت بلال ؓ نےکیا تھا جب اسلام قبول کرتے ساتھ ہی انہیں دہکتے انگاروں اور تپتی ریت پہ لٹا دیا گیا تھا، تب محبت امتحان لے رہی تھی اور سلام ہے حضرت بلال ؓ کو جن کے منہ پہ کوئی شکوہ یا گلا نہیں آیا بلکہ منہ سے رانجھا رانجھا نکل رہا تھا، یعنی احد احد ،(الله ایک ہے ،الله ایک ہے)۔۔۔”

محبت تو یہ ہوتی ہے پتر اور محبت کا حق ادا کرنے کا مزہ بھی تب ہی آتا ہے جب آپ درد کی انتہا پہ بھی ہو تو منہ سے رانجھا رانجھا ہی نکلے۔

میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گے سُن کے ،محبت اور رانجھے کا کانسیپٹ تو آج صحیح معنوں میں سمجھ آ رہا تھا
میں اور دھیان سے سننے لگا۔ بابا جی کی آواز بھر گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ روتے ہوئے بتانے لگے کہ پتر

“رانجھا راضی توحضرت ایوبؓ نے کیا تھا”
وہ اتنے بیمار ہو گے تھے کہ ان کے زخموں میں کیڑے پڑ گے تھے یہاں تک کہ ان کی زوجہ مبارکہ نے ان سے کہا کہ آپ اپنے رب سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ آپ کو صحت یاب کر دیں تو حضرت ایوب ؓ نے کہا “ہم نے کتنے ہی سال خوش حالی میں گزار دیے تب کیوں نہیں کہا اتنے سال سے خوش حال ہیں ہم۔”

“میرا رب جب تک میرا امتحان لینا چاہتا ہے میں دوں گا ،اور جسم سے اگر کوئی کیڑا نیچے گر جاتا تو اٹھا کے دوبارہ اسے جسم پہ رکھ دیتے اور کہتے کہ شاید تمہارا رزق میرے جسم میں ہے۔”

اتنا صبر اتنا صبر کوئی کیسے کر سکتا ہے پتر !
بابا جی بتاتے بتاتے ہچکیوں کے ساتھ رونے لگ گے اور میری آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے . کچھ دیر ہم دونوں روتے رہے پھر کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی…

پھر تھوڑی دیر بعد بابا جی نے کہا کہ پتر اب پتہ چلا رانجھا راضی کیسے کیا جاتا ہے ؟
“پتر یار دی رضا اِچ راضی ہونا پیَندا اے”

جے یـــار میــــــرا دُکھـــــــاں اِچ راضــــی
تــــے میــں سُکـــــھ نـوں چـــولہے ڈاواں
🤍

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button