اقتباس

زاویہ

انسان کی فطرت میں، لا شعور میں ہے نا، وہ اک بات جو اس تک نہیں پہنچ سکتا، بنیادی طور پر تنقید کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، انسان کے لا شعور میں ایک بات ہوتی ہے کوئی Aim ہوتا ہے Goal ہوتا ہے اس کو نہیں حاصل کر سکتا اور جو اس کو حاصل کر چکا ہوتا ہے اس پر وہ تنقید کرتا ہے

مثلا لڑکیاں دیکھیں کسی دوسری لڑکی کو دیکھ کر کہتی ہیں، ،کیا شکل اس کی کوجھی سی ہے اکثر لڑکیاں تو یہ کہتی ہیں اس کے کان چھوٹے ہیں وغیرہ، رنگ نہیں گورا لیکن فرض کریں کہ وہ اچھی نہیں ہے تو میں دیکھتا ہوں وہ تنقید کر رہی ہوتی ہے، اس کا جی چاہ رہا ہوتا ہے کہ جو جو کچھ خوبیاں بیان کر رہی ہوں میں ویسی بن جاؤں اور اس میں اس کو کچھ کچھ خوبیاں محسوس ہوتی بھی ہیں، ہمارے گھروں میں رشتے وغیرہ کے لیے جاتے ہیں جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا دیکھ کر آئی ہیں، جواب ملتا ہے،

اگر ملا جلا کر دیکھیں تو خوبصورت لگتی ہے اک اک چیز تو کچھ بھی نہیں تھی، ،

لا حول ولا قوہ یہ کیا بات ہوئی، نہیں نقص تو ٹھیک تھی یہ جو cosmetics کی اتنی بڑی انڈسٹری ہے جو کہ سٹیل کے بعد دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے تو شاید اس خوف سے تو نہیں پیدا ہوئی کہ دیکھو میں تنقید کرتی ہوں یا کرتا ہوں اور پھر اس کے بعد مجھ میں یہ چیز پیدا ہو جائے تو میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو تنقید کر رہا ہوتا ہے وہ آرزومند اس بات کا ضرور ہوتا ہے،-؛

(اقتباس از اشفاق احمد زاویہ)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button