شاعری

زندگی سے اب تو گھبراتے ہیں ہم

دل کو پھر کاکل میں الجھاتے ہیں ہم
سر پہ پھر روزِ سیہ لاتے ہیں ہم

جب تری فرقت میں گھبراتے ہیں ہم
سر کو دیواروں سےٹکراتے ہیں ہم

یاد آتے ہیں وہ عارض پھول سے
باغ میں جاجا کے گل کھاتے ہیں ہم

اے اجل آچک خدا کے واسطے
زندگی سے اب تو گھبراتے ہیں ہم

کل کہ آئے تھے نہ آویں گے کبھی
بے بلائے آج پھر جاتے ہیں ہم

کر سکے گی تو نہ اپنی ہمسری
تو تو چل باد صبا آتے ہیں ہم

ہم پہ بہتاں اور کی الفت کا ہے
لےترے سر کی قسم کھاتے ہیں ہم

جاں نہ دی ہوگی کسی نے رو برو
یہ تماشا تجھ کو دکھلاتے ہیں ہم

ہم نہ ہوویں گے تو پھر پچھتائے گا
مفت تیرے ہاتھ سے جاتے ہیں ہم

دل کسی صورت سمجھتا ہی نہیں
تابمقدور اس کو سمجھاتے ہیں ہم

وصل کی مانی ہیں کیا کیا منتیں
چلے درگاہوں میں بندھواتے ہیں ہم

ارتباط آپس کے اب موقوف ہیں
وہ ہی آتے ہیں نہ واں جاتے ہیں ہم

وصل میں بھی یاں ہے عالم ہجر کا
اس کو پاکر کھوئے سے جاتے ہیں ہم

یاد آتا ہے وہ مکھڑا چاند سا
چاندنی راتوں میں چلاتے ہیں ہم

کھینچ کر لاتے ہیں کوئے یار سے
واں توجاکر پاؤں پھیلاتے ہیں ہم

کس نے وعدہ گھر میں آنے کا کیا
آپ سے باہر ہوئے جاتے ہیں ہم

زلف کی تعریف جب کرتا ہے غیر
سانپ کے مانند بل کھاتے ہیں ہم

وحشت آبادی میں جب کرتی ہے تنگ
جانب صحرا نکل جاتے ہیں ہم

رندؔ جب ملتے ہیں وہ تنہا کہیں
دوڑ کر ان سے لپٹ جاتے ہیں ہم

مسکرا کر کہتے ہیں تب ناز سے
بس انہی باتوں سے گھبراتے ہیں ہم

رند_لکھنوی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button