شاعری

سفر مجھ کو صدائیں دے رہا ہے۔۔۔

مجھے اذنِ سفر دے مہرباں عورت!
میں عمروں کا تھکا ہارا مسافر ہوِں،
تِری چھتنار چھاؤں میں
چلا آیا ہوں پل بھر کے لیے
اگلا سفر مجھ کو صدائیں دے رہا ہے
راستے پھر سے مجھے آواز دیتے ہیں!

مجھے اپنے دکھوں کی بے کرانی سے
نجاتِ کرب کا اک پَل،
فقط اک پَل عنایت کر
میں اپنی عمر کی ساری اداسی
ڈھیر کر دوں گا تِرے شفاف قدموں میں!

مجھے اپنی محبت کے سمندر سے
فقط دو چار اشکوں کی رطوبت دے
کہیں سے ٹوٹ کر بکھری ہوئی
اپنی کہانی میں
مجھے اک لفظ لکھنے کی سعادت دے
مجھے وہ خواب چننے کی اجازت دے
جو بِن دیکھے تری آنکھوں میں بکھرے ہیں!

میں اپنا جسم اوڑھے کب سے بیٹھا ہوں
مجھے پہچان، مجھ کو آشنائی دے
مجھے قیدِ بدن سے اب رہائی دے
مجھے لمبی جدائی دے
مجھے اُس ہجر لمحے کی بشارت دے
جو مِلتا ہے
ابد کے اُس کنارے سے
کسی روشن ستارے سے
زمینی خواہشوں سے ماورا کر دے
مجھے اپنے دکھوں کی انتہا کر دے
مِرے اگلے سفر کی ابتدا کر دے!

مجھے زادِ سفر دے کر
خود اپنے ہاتھ سے رخصت بھی کر
انجان دیسوں کی طرف
اُن منزلوں کی سمت
جن سے راستے کترا کے چلتے ہیں
مجھے جلدی ہے، جانا ہے
تِرے ہر درد کا تریاق لانا ہے
فشارِ وقت سے پہلے مجھے واپس بھی آنا ہے
سفر آغاز کرنے دے مجھے اے مہرباں عورت!

(نصیر احمد ناصر، نظم “سفر مجھ کو صدائیں دے رہا ہے”)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button