شاعری

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن میں اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کے ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے رات کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبین اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹہر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے رکتا ہے قافلہ دل کا

سو راہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹہریں یا کوچ کر جائیں

فراز آئو ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button