شاعری

شام آئی۔۔۔۔

‏شام آئی، تری یادوں کے ستارے نکلے
رنگ ھی غم کے نہیں ، نقش بھی پیارے نکلے

ایک موھوم تمّنا کے سہارے نکلے
چاند کے ساتھ ترے ھجر کے مارے نکلے

کوئی موسم ھو مگر شانِ خم و پیچ وھی
رات کی طرح کوئی زُلف سنوارے نکلے

رقص جن کا ھمیں ساحل سے بھگا لایا تھا
وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے

وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ھی سبک نام رھا
عشق کے باب میں سب جُرم ھمارے نکلے

عشق دریا ھے، جو تیرے وہ تہی دست رھے
وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے

دھوپ کی رُت میں کوئی چھاؤں اُگاتا کیسے
شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں میں آرے نکلے

پروین شاکر

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button