شاعری

شب گزر جائے گی۔۔۔

شب گزر جائے گی

ایک مدت سے ٹھہری ہوئی رات کا یہ سرا
ہے طوالت میں جکڑا ہوا دوستو
سانس جیون کی تھم تھم کے چلتی ہوئی
ہر گھڑی جیسے قرنوں میں ڈھلتی ہوئی
زندگی کے شجر سے یہ گرتی ہوئیں
نرم و نازک، ہری ،زرد سی کونپلیں
اک عجب خوف ساری فضاؤں میں ہے
برنگِ زمیں دام چاروں طرف
بے ارادہ چلے جا رہے ہیں سبھی
پیر تھمتے نہیں، آنکھ کھلتی نہیں
کوئی رہبر نہیں کوئی منزل نہیں
اک الاؤ ہے سینوں میں بھڑکا ہوا
رائیگانی کی بڑھتی ہوئی آگ اب
سب گھروں کو جلائے گی تم دیکھنا
دھیرے دھیرے یہ محفل اُجڑتی ہوئی
کون جانے یہ شورِ بلا کب تھمے
ہاں مگر
دن کڑا ہے بہت ، رات بھاری سہی
میری دھرتی پہ ہر وار کاری سہی
دو قدم دور ہے روشنی دوستو
ہاتھ تھامے رکھو شب گزر جائے گی

شاہین کاظمی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button