شاعری

صبح آنکھیں ہیں، شام آنکھیں ہیں

صبح آنکھیں ہیں شام آنکھیں ہیں
اب جواب و سلام آنکھیں ہیں

چار سُو حسرتوں سے تکتی ہیں
ہر جگہ تیز گام آنکھیں ہیں

جنبشِ ابرو اِنکی کیا کہئیے
دلبروں کا پیام آنکھیں ہیں

طنز لہجے میں اُنکے جچتا ہے
جنکی حسنِ کلام آنکھیں ہیں

میر و غالب کو سب سمجھتے ہیں
شاعری کی امام آنکھیں ہیں

تم نے آنکھوں میں قید کر ڈالا
اب تمہاری غلام آنکھیں ہیں

تیری آنکھوں کی تشنگی کے سوا
جتنی دیکھیں ہیں عام آنکھیں ہیں

تیری آنکھوں میں نیم خوابی ہے
مے کشی کا یہ جام آنکھیں ہیں

وہ جو آنکھوں سے مے پلاتے ہیں
ہم پہ انکی حرام آنکھیں ہیں

دل تو اپنا نحل کے جیسا ہے
دل کا سارا نظام آنکھیں ہیں

اب تو آنکھوں پہ بوسہ بنتا ہے
کتنی عالی مقام آنکھیں ہیں

(درویشؔ)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button