مضامین

صلو علی النبی

ایک سچے واقعہ سے ماخوذ
MR. BRIAN COMPTON
میں سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی ہوختیف اے جی میں کام کرتا تھا۔ یہ کمپنی دنیا میں بہت سے بڑے ایئرپورٹ، ڈیم، اور ایٹمی بجلی گھر بنا چکی تھی ۔ اور اس وقت دنیا کا ایک بہت بڑا ائیرپورٹ بنانے میں مصروف تھی۔ اس میں تقریباً 15 ہزار پاکستانی ورکرز کام کررہے تھے۔ دو بڑے بڑے لیبر کیمپ شہر سے تقریبا 40 میل دور سائٹ پر قائم تھے۔
گوروں کے اسٹاف میں تقریبا سب جرمن تھے ۔ ہم صبح سات بجے آتے اور رات 8 بجے جاتے تھے۔ میرا اصل کام انگلش / عربی ٹرانسلیشن تھا ۔ کسی بھی پاکستانی یا عربی کے مسئلہ کو انگلش میں ترجمہ کرنا، انگلش ، عربی خط و کتابت کی ذمہ داری ۔ صبح سے شام تک سو کے قریب ٹریلرز سامان لے کر آتے تھے، ان کے عربی ڈرائیوروں کو مختلف سائٹس کی لوکیشن سمجھا کر بھیجنا ۔ پھر ہمارے ساتھ تقریبا 20 کے قریب سب کنٹریکڑ کمپنیز کام کررہی تھیں انکے تمام معاملات کو دیکھنا ۔ انکے چیفس سے ملاقات کرنا اگر بہت پیچیدہ مسئلہ ہو تو ان کو اوپر سی ای او کے پاس بھیج دیتا تھا۔ میرا کمرہ خاصہ بڑا تھا آپ اس کو ایک ہال کہہ سکتے ہیں۔ کمرہ سینکڑوں فائلوں سے بھرا ہوا تھا۔ وائر لیس سیٹ تھا جس سے تمام سائٹس کے چیف سے رابطہ رہتا تھا۔ اک دن میں بڑی محویت سے ایک شپنگ فائل پر کام کررہا تھا کہ ایک دم دھڑام سے زورسے دروازہ کسی نے لات مار کر کھولا ، میں اچھل گیا ۔ دیکھا تو ایک درمیانی قد کا دبلا پتلا گورا، تھری پیس سوٹ پہنے تیزی سے کمرے میں داخل ہوا ، بڑے مغرور انداز میں میرے پاس آیا پھر بڑی حقارت سے بولا ” ہیلو، سو یو آر مسٹر رضوان ۔۔۔
میں نے چونک کر اسے دیکھا، اس نے سگار کا ایک لمبا کش لیا، دھواں میرے منہ پر چھوڑتے ہوئے کرسی گھسیٹی اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔ پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ مسٹر فریڈرک کیسے نے کل رات ہی تو چھٹی کے وقت بتایا تھا کہ امریکہ سے ایک برطانوی مسٹر برائن کامپٹن ٹریننگ کے لیئے میرے پاس آرہا ہے، کوئی مہینہ بھر رہے گا۔ اس وقت بلا کی گرمی پڑرہی تھی، اے سی بھی ہلکا ہی چل رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا میں اسپین کا انگور کا یخ راوش کا جوس پی رہ تھا۔ اس نے کین کو دیکھا اور بڑے تکبر سے پوچھا یہ کتنے کا ہے ۔ میں نے کہا 2 ریال کا ہے۔ اس نے جیب ٹٹولی اور 2 ریال میرے ہاتھ میں رکھ کر رعونت سے بولا مسٹر رضوان (گو اینڈ برنگ می ون ۔۔ ) جاؤ اور میرے لیئے ایک جوس لاؤ۔۔۔۔ میرا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ میں نے کہا ۔ یہ انٹر کام کا سرخ بٹن ہے اس کو دبا کر جوس کا آرڈر کریں،پانچ منٹ میں جوس ویٹر لے آئے گا۔ اور سنیئے! مسٹر برائن ایک وقت تھا کہ سلطنت برطانیہ کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ سلطنت برطانیہ سکڑ کر محض ایک چھوٹے سے جزیرہ پر محیط ہوگئی ہے۔ وہ ایک دم طیش میں آکر کھڑا ہوگیا ۔۔۔ بولا ” واٹ ڈو یو مین بائی اٹ” ( تم کہنا کیا چاہتے ہو )
پھر چیخ کر بولا میں ابھی اسی وقت بڑے باس کے پاس جاکر تمھاری شکایت کرتا ہوں تمھاری اس بدتمیزی کی ، کیا مہمانوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ جوتے پٹختا ہوا ، بڑبڑاتا ہوا اوپر چلا گیا۔ مسٹر ڈپل، مسٹر گروٹے جو برابر والے کمرے میں کام کر رہے تھے، بھاگ کر آئے کہ مسٹر رضوان کیا ہوا۔ منصوری صاحب ( باس کے سکریٹری ) بھاگے بھاگے آئے بولے ” رضوان ! تم نے کیا قیامت کردی، اب تمھارا خروج پکا ہے، جلدی جلدی اپنا حساب کتاب کرلو۔ ٹھیک دس منٹ بعد مسڑ فریڈرک کیسے کی کال آئی انٹر کام پر، وہ بہت نرم لہجے میں بولے مسڑ رضوان کیا آپ پلیز مجھے 5 منٹ دے سکتے ہیں میرے کمرے میں ۔۔۔ میں سمجھ گیا اب کیا ہونے والا ہے ظاہر ہے گورا ، گورے کا ہی ساتھ دے گا۔ میں کمرے میں گیا تو مسڑ برائن نے گردن اکڑاکر، رعونت سے مجھے دیکھا ۔ مگر مسٹر فریڈرک کیسے نے بڑی شائستگی سے کہا پلیز تشریف رکھیں۔ مسٹر برائن نے غصہ اور حیرت سے کیسے کو دیکھا وہ سمجھ رہا تھا کہ سیدھا سیدھا ڈانٹنا شروع کردے گا۔
پھر اس نے پوچھا آپ کافی پیئں گے یا چائے، اور انٹر کام پر چائے، کافی اور کیک کا آرڈر کیا ۔ مسڑ برائن کی جھنجھلاہٹ قابل دید تھی۔ پھر اس نے کہا مسڑ برائن ہمارے مہمان ہیں میرا خیال ہے آپ کو ان کو ڈپلومیٹک طریقے سے ڈیل کرنا چاہیئے تھا ۔ میں نے کہا سر مہمان کو بھی مہمان کی طرح سلوک کرنا چاہیئے، اگر کوئی آپ سے ملنے آئے اور جیب سے 2 ریال نکال کر کہے جاؤ جلدی سے میرے لیئے جوس لے کر آؤ تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا۔ میں نے صرف ان سے اتنا کہا کہ انٹر کام سامنے ہے اس پر آرڈر کردیں۔
اتنے میں کافی آگئی اور مسٹر کیسے نے سب سے پہلے کافی بناکر کیک کے ساتھ مجھے دی اور پھر مسڑ برائن کو ۔۔۔ اس کا چہرہ غصہ سے آگ بگولا تھا اور تمتما رہا تھا۔ اس نے آرڈر دینے والے انداز میں مسڑ کیسے سے کہا میں اس شخص کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ مسڑ کیسے نے کہا یہ واحد شخص ہے جسکو شپنگ کا تجربہ ہے اور اس کی ایک ایک چیز سے واقف ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور نہیں جو آپ کو ٹریننگ دے سکے، میں امریکن آفس کو لکھ دیتا ہوں کہ میں مسٹر برائن کو واپس بھیج رہا ہوں، آپ ان کے علاوہ کسی اور کو بھیج دیں۔ ایک لمحہ کے لیئے مسٹر برائن کا چہرہ فق پڑگیا۔ بولا اس طرح تو میری ترقی رک جائے گی۔ ٹھیک ہے میں ان سے کمپرومائیز کرلیتا ہوں۔۔۔ مسڑ کیسے نے دبی مسکراہٹ سے مجھ کو دیکھا ۔ ایک کاغذ پر کچھ لکھا مجھے دیا اور کہا آپ جاکر اپنا کام شروع کرسکتے ہیں۔ نیچے آکر دیکھا تو کاغذ پر لکھا تھا ویل ڈن مسڑ رضوان۔ ( مسڑ رضوان تم نے جو کیا بہت اچھا کیا )۔
خیر ٹریننگ شروع ہوئی، رمضان کے دن تھے مسڑ برائن میرے سامنے بیٹھے شراب اور سگار ساتھ ساتھ پی رہے تھے۔ میں روزے سے تھا۔ اچانک وہ زور سے ہنسے اور بولے مسڑ رضوان یہاں شراب پر پابندی ہے نا ۔۔۔ اور میں رمضان میں تمھارے سامنے بیٹھ کر شراب پی رہا ہوں اور تم کچھ نہیں کرسکتے ، کتنے مجبور ہو تم ۔۔۔۔ میرا خون کھول گیا، میں حواس پر قابو پاتے ہوئے بولا مسڑ برائن یہاں غیرملکیوں کو کمرہ میں اندر بیٹھ کر پینے کی اجازت ہے۔
اچانک میرا ایک دوست دیو قامت، حبشی بدو ڈرائیور پسینے سے شرابور پہلوانوں کی طرح سینہ تانے کمرے میں آیا۔ اس کا قد کاٹھ اور باڈی ایک انٹرنیشنل ریسلر کی تھی۔ وہ خود بھی ڈرائیونگ سے پہلے ریسلر رہ چکا تھا۔ اس نے مسڑ برائن کو بڑی نفرت سے دیکھا ، پھر مجھ سے پوچھا یہ کیا پی رہا ہے ۔ میں نے کہا شراب۔ اس نے کہا اس کو شرم نہیں آتی رمضانوں میں مسلمانوں کے سامنے شراب پی رہا ہے۔ ۔۔۔ مسڑ برائن نے پوچھا یہ میری طرف اشارہ کرکے کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اس کو بتادیا۔ وہ بولا ” باسٹرڈ ! ایک حبشی ڈرائیور اس کی اتنی ہمت ۔۔۔ اس کا تو بادشاہ بھی مجھے منع نہیں کرسکتا، جانتا نہیں میں انگریز ہوں ۔ حبشی ڈرائیور نے پوچھا یہ مجھے کیا کہہ رہا ہے میں نے اس کو بتادیا۔ اس کے پورے جسم پر جنونی کیفیت طاری ہوگئ، وہ طیش میں آگے بڑھا اور چیخا۔۔۔۔ انا اقتلک، با للہ انا اقتلک۔۔۔ لا یستطیع حتی الملک ان یمنعنی ( میں تجھے قتل کردوں گا۔۔۔ خدا کی قسم میں تجھے قتل کردوں گا ، بادشاہ بھی مجھے نہیں روک سکتا ) اس نے اس کا گریبان پکڑ کر موڑنا شروع کیا، مسڑ برائن نے زور سے چیخ ماری، مگر وہ مسلسل موڑ رہا تھا، پھر اس نے اس کو ایک ہاتھ سے ہی سر سے اونچا اٹھا لیا، مسڑ برائن پوری طاقت لگا کر دوبارہ سے چیخا، تمام جرمن آگئے ، مسڑ کیسے بھی آگئے۔۔۔۔ سب نے اس کو چھڑانے کو کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔۔۔ مسڑ کیسے نے شراب کی بوتل دیکھی ، گلاس دیکھا اور سب معاملہ سمجھ گئے ۔۔۔ مسڑ برائن کا سانس بند ہونے لگا تھا، آنکھیں ابلی پڑ رہی تھیں۔ مسڑ کیسے نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا رضوان خدا کے لیئے کچھ کرو یہ مرجائے گا۔ میں نے اس کو اشارے سے تسلی دی ۔۔۔ ڈرئیور کے کان کے پاس جاکر زور زور سے چیخا صلو علی النبی ۔۔۔۔۔۔ صلو علی النبی ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی یہ الفاظ اس کے کان میں گئے اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی،
اس نے درود شریف پڑھنا شروع کیا ، اس کے تشنج میں کمی ہوئی، ماتھے کی سلوٹیں ہٹیں، گردن کی رگوں کا تناؤ کم ہوا اور ہاتھ کی گرفت ختم ہوگئی، مسڑ برائن کومپٹن دھڑ سے فرش پر چاروں خانے چت گرپڑے، چند لمحوں بعد انھوں نے آنکھیں کھولیں، پورے کمرے کا جائزہ لیا اور ایک دم چھلانگ لگا کر کمرے سے بھاگے اور سیدھے مسڑ کیسے کے کمرہ میں جاکر اپنے آپ کو لاک کرلیا۔ مسڑ کیسے نے کہا رضوان تم نے اس کے کان پر چیخ کر کیا کہا تھا جو اس نے ایک لمحے میں چھوڑ دیا۔ میں نے کہا ” صلّو علی النّبی” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نسخہء کیمیاء جو غصہ کی آگ کو پانی کی طرح بجھا دیتا ہے۔۔۔
منقول

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button