اقتباس

ظلم

*ظلم کبھی نہیں بھولتا*

ایران کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کو پڑھانے کے لیے ایک استاد صاحب کا بندوبست کیا استاد صاحب کو کہا کہ میرے بچے کو دین پڑھائیے میں چاہتا ہوں کل اس نے انعام حکومت کو سنبھالنا ہے تو یہ دین سے آگاہ ہو جائیں اس کو خود سکھائیے پڑھائیے

ایک نیک بزرگ بڑے درویش عالی بادشاہ کے بیٹے کو پڑھانے لگے اسباب مکمل ہو گئے قران مجید پڑھایا احادیث طیبہ کا درس دیا اصول فقہ سے روشناس کرایا جب بچے نے مکمل تعلیم حاصل کر لی اور آمین ہو گئی دستار ہوگئی فارغ ہو گئے
تو پھر ایک دن استاد صاحب نے کہا بیٹے کل تم نے ضرور آنا ہے کچھ بات کرنی ہے صبح شہزادہ استاد صاحب سے سے ملنے گیا تو استاد صاحب نے کنڈی لگا لی ہاتھ میں درہ پکڑ لیا اور مار مار کے پورے وجود کو زخمی کر دیا کوئی غلطی نہیں کی تھی کوئی بات نہیں تھی بلا وجہ بچے کو مارا بچہ بادشاہ سلامت کے پاس آیا اور کہا کہ
ابا جی سمجھ نہیں آئی لیکن استاد نے بڑا مارا ہے بادشاہ سیانے تھے سمجھدار تھے کہنے لگے بیٹا استاد باپ ہوتا ہے وہ زیادتی نہیں کرتا کوئی بات ہوگی میں تیرے استاد کو کٹہرے میں نہیں بلاؤں گا بچے نے والدہ سے بات کی تو اماں کہنے لگی بیٹا میں تیرے باپ سے کیسے بات کروں ڈر آتا ہے
وقت گزر گیا 22 سال بیت گئے بادشاہ کا انتقال ہوا شہزادہ تخت پہ بیٹھا پہلا حکم یہ دیا کہ میرے استاد کو بلاؤ استاد جی بوڑھے ہو گئے تھے چھڑی کے اوپر ٹیک لگا کے آئے اور بھویں سفید ہو کے جھک گئی تھیں یوں آنکھ کھول کے بڑی مشکل سے دیکھا کہنے لگے شہزادے حکم ہو مجھے کیوں بلایا کہنے لگا میں شہزادہ نہیں اب میں بادشاہ بن گیا ہوں
استاد جی 22 سال گزر گئے آپ نے مجھے مارا تھا اور وہ آپ نے زیادتی کی تھی میرا قصور کوئی نہیں تھا تو نہ تو میری روح سے درد گیا ہے نہ میرے جسم سے گیا ہے میں بے اختیار تھا پوچھ نہیں سکتا تھا لیکن آج با اختیار ہوا ہوں سب سے پہلے پہلا حکم آپ کا دے کے بلایا ہے بتائے کیوں مارا تھا میری زیادتی بتائیں
تو بوڑھے استاد کی انکھیں انسوؤں سے بھر گئیں کہنے لگے بیٹے بس آج کے دن کے لیے مارا تھا یہ جو دن آگیا نا میری زندگی میں اس لیے مارا تھا یہ میں چاہتا تھا میری زندگی میں یہ وقت آئے آج میری مراد پوری ہوگئی شہزادہ کہنے لگا استاد صاحب کس لیے مارا تھا مجھے بھی سمجھائے آپ فرمانے لگے بیٹے کتنی دیر ہو گئی تجھے مار کھائے ہوئے کہنے لگا 22 سال فرمایا زخم بھولے تو نہیں
درد ختم تو نہیں ہوئی کیا ایک منٹ کے لیے بھی تمہارے حافظے سے بات محو ہوئی تو کہا استاد جی روز رات کو یاد آتا تھا استاد کہنے لگے تو بے اختیار تھا پوچھ نہیں سکتا تھا 22 سال تجھے یاد رہا مجھے پتہ تھا تو ایک دن حکمران بنے گا میں نے تجھے اس لیے مارا تھا کہ بیٹے یاد رکھنا کسی پہ ظلم نہ کرنا اگر تجھے 22 سال تک یاد رہا ہے تو جس پر تو ظلم کرے گا اسے بھی قیامت تک یاد رہے گا
اور یہ یاد رکھنا تو آج با اختیار ہوا ہے تو تو نے مجھے بلا لیا ہے قیامت کے دن غریب با اختیار ہو جائے گا مظلوم بے اختیار ہو جائے گا رب کریم کی بارگاہ کے اندر ان کا اختیار ہوگا اللہ کی حکمرانی ہوگی پھر وہ غریب بلائیں گے بڑے بڑے لوگ دنیا میں جن کی پگڑیاں اونچی تھیں وہ سر جھکائے کھڑے ہوں گے ظلم کرنا تو سوچ سمجھ کے کرنا اتنا کرنا جتنا تم سہہ سکتے ہو اتنی زیادتی کرنا جتنی قیامت میں تم برداشت کر سکو گے۔

منقول

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button