شاعری

عذاب دید میں آنکھیں۔۔۔۔

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے

زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

محسن نقوی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button