اقتباس

”مالک کل ‘

تو اگر اللہ کو اپنا مالک بنا لو، تو یہ دیکھو کہ اللہ کو اسکی ”ضرورت نہیں ہے “ وہ محتاج نہیں ہے، وہ لا محتاج ہے۔ تو اللہ کو “جہاں پر ضرورت” ہو آپ اپنی اشیاء کو اسکے Handover کرتے جاؤ۔
اپنے واقعات کو ، اپنی جوانی کو، اپنی صحت کو، اپنے حالات کو اور اپنے ” سٹور ہاؤس Store House “ کو اسکے نام لگاتے جاؤ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تم ” توجہ سے آشنا نہ ہو سکو”
تو یہ کام کون کر سکتا ہے ؟
” یہ تو وہی کر سکتا ہے جو اسکا اپنا ہو، جو اللہ کو اپنا سمجھے گا، وہ اسکا اپنا ہو گیا “
آپ نے اپنے پاس سے تو کچھ بھی نہیں کیا صرف اتنا کیا کہ ” ادھر سے اپنے نام والی چیز اٹھا کے اللہ کے نام پہ ادھر رکھ دی “
اتنا چھوٹا سا کام ہے یہ میں آپ کو اسکی عملی شکل بتا رہا ہوں، تو عملی شکل کیا ہے؟
ادھر سے اپنے نام پر جو اٹھایا وہ ادھر اللہ کے نام پر رکھ دو، جس چیز کے تم مالک ہو اب اسکے امانت دار بن جاؤ، “بس پھر توجہ کا شعبہ زندہ ہو جائے گا”
آپ ” آج مالک ہو لیکن یہ کہو کہ ہم تو اس چیز کے امین ہیں “
چیز تو اللہ کی ہے Even آپکے بچے بھی، ذرا احساس کرو اور خیال کرو کہ جو چیز تمہاری ملکیت ہے دراصل وہ تمہاری ملکیت نہیں ہے،
اور تم اسکے کیا ہو ؟
اسکے امانت دار ہو ” امین ” ہو تو چیز کس کی ہے ؟
مالک کی ہے، اب آپکے اندر توجہ کا شعبہ بیدار ہونا شروع ہوجائیگا یعنی مالک ہونے کے باوجود ملکیت چھوڑ دو۔
یہ تو کوئی مشکل بات نہیں ہے ناں ؟
تو یہ چیز کس کی ہے ؟
” اللہ کی ہے۔”
اور جب تم گاڑی میں ہوتے ہو اور کوئی اپاہج آ جائے تو اسکی مدد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایک انسان کو ایک دکھی انسان کو آپ کا سکھ کس حد تک سکھ پہنچاتا ہے۔ آپ جو سکھی انسان ہیں وہ دکھی انسان کے کس حد تک کام آتے ہیں، یہ سوچا کرو کہ اللہ کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں۔

سرکار امام حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
گفتگو نمبر 26 صفحہ نمبر 76

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button