اقتباس

ماں جی

“ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا “

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال کیونکر معلوم ہو سکتا تھا صحیح سن ولادت تو اس شخص کا معلوم ہو سکتا ہے جس کا تعلق دوران وقت سے ہو جو ہستی زمان و مکان کے حدود سے ماورا ہو اسے وقت کے پیمانے سے کیسے ناپا جا سکتا ہے؟ماں جی ایک ہستی، ایک فرد، ایک شخصیت کی بجائے آفاقی مامتا کا تصور دیتی ہے، ایک ازلی ابدی وجود

ماں جی نے دنیا میں آنے کے بعد ایک ایسے ماحول میں اپنی طفولیت کا دور گزارا ہے جو حد درجہ معصوم ہے ان کے والد کے پاس چند ایکڑ زمین تھی جو نہر کی کھدائی میں ختم ہو گئی تھی روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دئیے جاتے تھے یہ بزرگ معاوضہ لینے کے ڈھنگ سے ہی واقف نہیں تھے نتیجہ یہ کہ معاوضہ حاصل کرنے کی بجائے خود نہر کی کھدائی میں محنت مزدوری کرنے لگے

تو یہ ماں جی کے والد تھے-

اب دیکھئے جو لڑکی ایسے باپ کے زیر تربیت اپنے شب و روز گزارے گی وہ قدرتا” کس سانچے میں ڈھل جائے گی اسے دنیا داری کی کیا خبر ہو گی؟اس کے باطن میں اول تو وہ امنگیں پیدا ہی نہیں ہوں گی جو ایک سوجھ بوجھ اور زمانے کے نشیب و فراز کو سمجھنے والی ہستی میں پیدا ہو سکتی ہیں اور اگر پیدا ہوں گی بھی تو صبر و شکر کے گہرے احساس میں مد غم ہو جائیں گی

ماں جی کا سفر بڑی سادگی کے عالم میں شروع ہوتا ہے وہ زندگی کے شاداب راستوں پر سفر نہیں کرتیں، ان راہوں پر قدم اٹھاتی ہیں جن پر کہیں کہیں سایہ دار درخت مسافر کو تیز دھوپ سے بچا لیتے ہیں بس وہ اسی کو زندگی کا انعام سمجھ لیتی ہیں اور کبھی بھی حرف شکایت لب پر نہیں لاتیں ان کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ بقر عید کا تہوار آتا ہے تو ان کے والد انہیں تین آنے بطور عیدی کے دیتے ہیں

یہ تین آنے اتنی بڑی رقم تھی کہ اس کا مصرف ہی ان کو سمجھ نہیں آتا تھا،

یہ تین آنے ان کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہتے ہیں پھر ایک روز وہ گیارہ پیسوں کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیتی ہیں اور ایک پیسہ اپنے پاس محفوظ کر لیتی ہیں

اس کے بعد جب کبھی ان کے پاس گیارہ پیسے جمع ہو جاتے ہیں تو کسی مسجد کے دیئے میں تیل ڈالنے کا انتظام کر لیتی ہیں اس کے علاوہ ان گیارہ پیسوں کا کوئی مصرف وہ نہیں جانتیں

شہاب نے ماں جی کی اس عادت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے

“ساری عمر جمعہ کی شام کو اس عمل پر بڑی وضع داری سے پابند رہیں-رفتہ رفتہ بہت سی مسجدوں میں بجلی آگئی لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی انہیں ایسی مسجدوں کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے ہیں، وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے عمل کے رومال میں بندھے ہوئے چند آنے موجود تھے غالباً یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لیے جمع کر رکھے تھے چونکہ وہ جمعرات والی شب تھی-“

(اقتباس از شہاب نامہ)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button