شاعری

محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے

محبت کی طبیعت میں

یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے

کہ یہ جتنی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہو جائے

اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو

نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو

ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں جالے بناتی ہو

اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے

محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی

ک جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے

اور شب میں بارہا اٹھے

زمیں کو کھود کر دیکھے

کہ پودا اب کہاں تک ہے

محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خو ہے

کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو

اسے بس ایک ہی دھن ہے

کہو مجھ سے محبت ہے ‘:

کہو مجھ سے محبت ہے ‘”

تمہیں مجھ سے محبت ہے “،

کچھ ایسی بے شگونی ہے وفا کی سرزمینوں میں

کہ اہل محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے

کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارہ

کہ جیسے شام کا تارہ ¡

محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے

گماں کی شاخ پر آشیاں بنتا ہے الفت کا

یہ عین وصل میں بھی ،ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے

محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں

تھکن کی کرچیاں چنتے، وفا کی اجرکیں پہنے

سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پر رکتے ہیں

تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر

دھیرے سے کہتا ہے

یہ سچ ہے ناں!

ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی

یہ دھندلکا سا جو نگاہوں سے قریب ودور پھیلا ہے

اسی کا نام چاہت ہے!

تمہیں مجھ سے محبت تھی!

تمہیں مجھ سے محبت ہے!

محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے

(امجد اسلام امجد)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button