اقتباس

نفرت کی تیزاب

نفرت کی تیزاب

مغرب کے ایک ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفرت کی مثال ایک قسم کی تیزاب کی سی ہے- ایک عام برتن میں اس کو رکھا جائے تو وہ اپنے برتن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچانے گا جتنا اس کو جس پر وہ تیزاب ڈالا جانے والا ہے-

اگر آپ کو کسی کے خلاف بغض اور نفرت ہو جائے اور آپ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں تو جہاں تک آپ کا تعلق ہے، آپ کے سینے میں رات دن ہر وقت نفرت کی آگ بھڑکتی رہے گی- مگر دوسرے شخص پر اس کا اثر صرف اس وقت پہنچتا ہے جب کہ آپ عملاً اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہوں- مگر ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو وہ نقصان پہنچا سکے جو اس کو وہ پہنچانا چاہتا ہے- نفرت کے تحت عمل کرنے والے کا منصوبہ بیشتر حالات میں ناکام رہتا ہے-

مگر جہاں تک نفرت کرنے والے کا تعلق ہے، اسی کی لیے دو میں سے ایک عذاب ہر حال میں مقدر ہے- جب تک وہ اپنے انتقامی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوا ہے انتقام کی آگ میں جلتے رہنا اور اگر بالفرض کامیاب ہو جائے تو اس کے بعد ضمیر اس کا پیچھا کرتا ہے- وہ اپنے حریف کو قتل کر کے خود بھی اپنے چین کو ہمیشہ کے لیے قتل کر لیتا ہے- انتقام کے جنون میں اس کا انسانی احساس دبا رہتا ہے مگر جب حریف پر کامیابی کے نتیجہ میں اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑتا ہے تو اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ساری عمر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے کہ تم نے بہت برا کیا-

فوجداری کے ایک وکیل نے ایک بار راقم الحروف سے کہا کہ میرا سابقہ زیادہ تر ایسے لوگوں سے پیش آتا ہے جن پر قتل کا الزام ہوتا ہے – مگر میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی قاتل دیکھے سب کو میں نے پایا کہ قتل کے بعد وہ اپنے قتل پر پشیمان تھے- وقتی جوش میں آ کر انہوں نے قتل کر دیا مگر جب جوش ٹھنڈا ہوا تو ان کا دل انھیں ملامت کرنے لگا- یہی ہر مجرم کا حال ہے- کوئی مجرم اپنے کو احساس جرم سے آزاد نہیں کر پاتا- جرم کے بعد ہر مجرم کا سینہ ایک نفسیاتی قید خانہ بن جاتا ہے جس میں وہ مسلسل سزا بھگتتا رہتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ منفی کارروائی سب سے پہلے اپنے خلاف کارروائی ہے منفی کارروائی کا نقصان آدمی کی اپنی ذات کو پہنچ کر رہتا ہے خواہ وہ دوسروں کو پہنچے یا نہ پہنچے-

راز حیات
مولانا وحیدالدین خان

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button