شاعری

پھر سے اک بار۔۔۔

پھر سے آنکھوں میں نئے خواب بچھانے ہوں گے
سانس جب تک ہے نئے راہ بنانے ہوں گے

جو ہمیں بھول گئے ہم کو بھلانے ہوں گے
خود کو اب تازہ نئے روگ لگانے ہوں گے

روز اک شخص کہانی سے نکل جاتا ہے
کتنے کردار اکیلے کو نبھانے ہوں گے

دودھ یہ سوچ کے خود روز پلا دیتا ہوں
آستینوں میں سبھی دوست پرانے ہوں گے

چاہ کر بھی یہ کبھی رکھ نہیں پائیں گے بھرم
اپنے اشکوں سے بھی سب زخم چھپانے ہوں گے

لوگ پڑھتے ہی ہمیں نام ترا لیتے ہیں
اپنے لفظوں سے ترے نقش مٹانے ہوں گے

یہی دستور جہاں کا ہے کہ روٹھے، ہم کو
بے وفا ہوں کہ وفا دار منانے ہوں گے

پوچھ لینا کسی آندھی سے پتہ ابرک کا
اس کی نظروں میں سبھی میرے ٹھکانے ہوں گے

۔۔۔۔اتباف ابرک

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button