شاعری

کال کوٹھڑی تیرا نام زندگی رکھا۔۔۔۔

نام دشمنِ جاں کا، خواب اور خوشی رکھا
کال کوٹھری تیرا ، نام زندگی رکھا

سوچ اور حقیقت میں ربط کاغذی رکھا
رخ رہا اندھیروں کا ، شوق آگہی رکھا

جب چلن جہاں نے بس، اپنا بے حسی رکھا
ہم نے بھی گلہ اپنا ، صرف خامشی رکھا

داستاں کہی جو بھی، تم کو مرکزی رکھا
اور خود پہ گزری جو، اس کو ان کہی رکھا

فیصلہ جو پہلا تھا، اس کو آخری رکھا
جو ملا ملے اس کو، دل میں تم کو ہی رکھا

بھیڑ میں فرشتوں کی خود کو آدمی رکھا
رنگ و روپ دنیا کا ہم نے اجنبی رکھا

کتنی مشکلوں کو دور ، تو نے پیشگی رکھا
اپنا ڈھنگ جو ابرک تو نے سادگی رکھا

.ن م

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button