معاشرتی کہانیاں

   کھلواڑ 

  شہزین اٹھو اٹھو یار کلاس کا ٹائم نکل رہا ہے اور تم جانتی ہو سر فائق قریشی کس قدر سخت ہیں اس معاملے میں اگر کوئ سٹوڈنٹ ذرہ سا بھی لیٹ ہو جائے تو کیسی تواضع کرتے ہیں وہ اس کی ۔۔۔۔

صبغہ نے سخت غصے،پریشانی اور گھبراہٹ میں شہزین کو جو جھنجوڑا تو وہ بیچاری ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی 

کیا ہے یار؟؟کیا مصیبت ہے؟ میں تو سمجھی پورے عالم میں کوئی زلزلہ آ گیا ہے… اور یہ کیا تمہارے سر کے اوپر ہر وقت سر فائق قریشی کا خوف سوار رہتا ہے اگر وہ اٹینڈیس شیٹ پہ ایبسینٹ بھی لگا دیں گے تو مجھے پرواہ نہیں رہی بات لیکچر مس ہونے کی تو میں کسی سے نوٹس مانگ لوں گی ویسے بھی تم تو جانتی ہو میری کتنی پی آر ہے ۔۔۔۔شہزین اپنی قمیض کا کالر پکڑ کر بڑی ادا سےاترائ جس پر صبغہ شدید چڑ گئی 

مرو تم ادھر ہی، ،میں ماہا کے ساتھ جا رہی ہوں یونیورسٹی، اگر آنے کا موڈ ہوا تو روم لاک کرتی آنا ماہا بھی میرے انتظار میں لیٹ ہو رہی ہے 

اوہ یس یس ڈئیر تم جائو اور ہاں سر قریشی کو میرا سلام کہنا 

شہزین کہاں شرمندہ ہونے والی تھی ڈھٹائ سے چادر کھینچی اور اوڑھ کر سو رہی 

یہ ان تینوں کا یونیورسٹی میں دوسرا سال تھا شہزین کو تو پڑھائی سے کم اور اپنے آرام و آسائش سے ذیادہ لگاؤ تھا ہاسٹل میں آ کر تو اس کو اور اپنی من مانی کا موقع مل گیا تھا صبغہ سے اس کی کافی اچھی دوستی تھی وہ بھی شہزین کی فطرت کو کافی حد تک سمجھ گئ تھی جبکہ ماہا ان دونوں سے الگ تھلگ تھی اپنے کام سے کام رکھنے والی، ذیادہ گھلتی ملتی بھی نہ تھی شہزین کا تعلق ایک متوسط طبقے کی فیملی سے تھا اس کے والد بینک میں ملازم تھے تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اس کی ایک بڑی بہن تھی جس کا انتقال جوانی میں کسی مرض کی وجہ سے ہو گیا تھا 

شہزین اکثر اپنی آپی کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتی تھی 

یار صبغہ ۔۔۔۔۔۔تم جانتی نہیں ہو اس کرب کو جو میں نے مرتے وقت اپنی بہن کے چہرے پر دیکھا ۔۔۔۔۔

وہ جب جب اپنی بہن کا ذکر کرتی یہی بات کہتی 

شہزین ان کی زندگی اتنی ہی تھی کوئی انسان وقت مقررہ سے ایک سانس بھی اوپر نہیں لے سکتا 

نہیں صبغہ ۔۔۔۔۔بیماری سے ذیادہ میری بہن کو اسجد بھائی کی بے وفائی نے مارا ہے ۔۔۔۔میری آپی ۔۔۔میری پیاری بہن عنبرین اسجد بھائی سے بے انتہا محبت کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔لیکن کیا صلہ ملا اس کا؟؟؟

یہ مرد ذات ہوتی ہی بے وفا ہے 

اسجد شہزین کا ماموں زاد تھا عنبرین اور اسجد یک جان دو قالب تھے دونوں کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے گھر کے بڑوں نے ان کا رشتہ طے کر دیا 

لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا عنبرین کو سنگین بیماری کی تشخیص ہوئی ماں باپ نے بہت علاج معالجہ کروایا اپنی بساط سے بڑھ کر روپیہ پیسہ لگایا لیکن بے سود ۔۔۔۔۔عنبرین کی قسمت میں زندگی کی بہاریں اتنی ہی لکھی تھیں 

لیکن اس سب عرصے میں اسجد کی اصلیت سامنے آ گئی بستر مرگ پر پڑی عنبرین اس کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا 

،،میری بہن کی آنکھوں میں آخری وقت تک لجاجت اور بے بسی تھی ۔۔۔۔کہتے ہیں کہ مرنے والے کی آنکھیں ادھ کھلی ہوں تو اس کو کسی کا انتظار، ،کسی کے آنے کی آس ہوتی ہے لیکن آپی کی آس بھی قبر میں ان کے ساتھ دفن ہو گئ 

صبغہ کو یہ سب بتاتے ہوئے شہزین کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا 

میں اپنی بہن کے دکھوں کا مداوا تو نہیں کر سکتی لیکن مرد سے اس بے وفائی کا حساب ضرور لوں گی 

صبغہ اس کی باتیں سن کر کانپ اٹھتی تھی لیکن وہ اس کو سمجھا ہی سکتی تھی 

صبغہ کے والد اور والدہ دونوں ایجوکیشن کے محکمہ سے وابستہ تھے ان کے دو ہی بچے تھے صبغہ اور صائم دونوں ہی بہت سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک تھے شہزین اور صبغہ کی فیملی کا ایک دوسرے سے اچھا ملنا ملانا تھا وہ دونوں بھی ایک دوسری کی اچھی سہیلیاں تھیں لیکن اب یونیورسٹی ہاسٹل آ کر ذیادہ وقت اکٹھا گزرنے لگا تو صبغہ پر شہزین کی اصل شخصیت اور انداز واطوار کے پوشیدہ پہلو ظاہر ہوتےچلے گئے جو بعض اوقات تو اس کے لئے پریشان کن ہوتے اور بعض اوقات اس کو شہزین پر بہت ترس آتا اور ہمدردی محسوس ہوتی 

ماہا ان دونوں میں صبغہ سے ذیادہ بات چیت کرنا پسند کرتی اس کو شہزین کی عادات وانداز بالکل پسند نہیں تھے 

اس کی اور شہزین کی اکثر کسی بات پر شدید بحث ہو جاتی جو بیچاری صبغہ کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی  

یونشیورسٹی میں آج کل لٹریری فیسٹیول کی تیاریاں ہو رہی تھیں سب اس میں مصروف تھے 

 شہزین جو سدا ہلہ گلہ کی رسیا تھی ہر کام میں پیش پیش تھی لٹریری سوسائٹی کے فہد، شہرام، احمد سب کے ساتھ اس کا خاصہ وقت گزرنے لگا سینئرز میں بھی اس کی اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں سے میل ملاقات ہوتی رہتی 

یار صبغہ تم نے نوٹس کیا ہے ولید علی کیسے بہانے بہانے سے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟میرے آگے پیچھے پھر رہا تھا؟ 

رات کو کھانا کھانے کے بعد ہاسٹل کے لان میں ٹہلتے ہوے شہزین نےصبغہ کے کان میں سرگوشی کی 

کیا؟؟؟صبغہ اچھل پڑی 

خدا کا واسطہ شہزین کوئی نیا ایڈونچر نہ کر دینا پہلے تم کبھی فہد کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتی ہو کبھی شہرام تمہارے آگے پیچھے گھوم رہا ہوتا ہے اور تو اور سینئرز میں بھی کچھ کے انداز تمہارے لئے مشکوک ہیں اور اب یہ ولید علی ۔۔۔۔۔

تم چاہتی کیا ہو آخر؟؟

شہزین نے اس کے اس طرح اچھلنے اور چیخنے پر قہقہ لگایا 

ہائے ۔۔۔۔۔۔۔تم کیا جانو میری جان ۔۔۔۔ان لڑکوں کو پیچھے لگا کر، الو بنا کر کتنا مزہ آتا ہے 

بھاڑ میں جائو تم، ،،

صبغہ پاوں پٹختی کمرے میں چلی گئی 

شہزین کے انداز واطوار سب کلاس فیلوز کی توجہ کا مرکز ہوتے جہاں لڑکیاں اس کے بے باک انداز میں گھلنے ملنے اور ٹھٹھے مار کر ہنسنے پر چہ میگوئیاں کرتیں وہیں لڑکے اس سے بات کرنے کے موقعے ڈھونڈتے اور محظوظ ہوتے 

اس دن موسم بہت خوشگوار تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی کل رات کی بارش سے ہر چیز دھل کر نکھر گئی تھی یونیورسٹی میں بھی کچھ پیریڈز ہونے تھے ذیادہ کلاسز آف تھیں شہزین اٹھ کر یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی میک اپ کرنا، ،،ہیئر سٹائلنگ ۔۔۔۔جدید تراش خراش کا لباس 

یہ تم یونیورسٹی کے لیے تیار ہو رہی ہو یا کسی ولیمے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے میڈم کو؟؟

صبغہ اس کو چھیڑنے لگی 

بس یوں ہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔۔شرارتی لہجے میں بولی 

آج شہرام کی برتھڈے ہے اور اس نے مجھے گیٹ ٹو گیدر پر خصوصی طور پر انوائٹ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔تم تو جانتی ہو میں کتنی خاص ہوں اس کےلئے 

او۔۔۔۔۔صبغہ نے آنکھیں پھیلائیں 

۔۔۔اور وہ تمہارے لئے؟؟؟

میرے لئے کوئی ایک کبھی خاص نہیں ہو سکتا میری جان ۔۔۔۔۔۔

شہزین خدا کے واسطے ۔۔۔مت کیا کرو ایسا ۔۔۔لڑکیوں کی عزت بڑی نازک ہوتی ہے کسی مصیبت میں پھنس گئیں تو زمانے بھر میں رسوا ہو جائو گی 

مجھے کوئی پرواہ نہیں میں اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینا چاہتی ہوں خیر آج میرا موڈ مت خراب کرو 

شہزین کہاں سننے والی تھی تینوں ہاسٹل سے روانہ ہو گئیں 

ڈیپارٹمنٹ کے باہر ہی شہرام کھڑا تھا 

اچھا صبغہ یار تم لوگ چلو میں کچھ دیر میں آتی ہوں 

ماہا حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی لیکن کچھ نہ بولی صبغہ نے چپکے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کلاس روم کی طرف چل دی

اب شہزین اور شہرام ساتھ تھے 

کب شروع ہو رہی ہے پارٹی؟؟اس نے شوخ انداز میں شہرام سے پوچھا 

تمہارے بغیر بھلا کہاں ہو سکتی ہے پارٹی ۔۔۔۔۔۔شہرام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دھیرے سے کہا 

آس پاس سے سٹوڈنٹ گزر رہے تھے شہزین نے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑایا 

دونوں وہاں سے چلتے ہوئے کیفے ٹیریا میں  آگئے 

صبح کا وقت تھا کیفے ٹیریا میں بہت کم سٹوڈنٹ تھے وہ دونوں جا کر دور پڑی خالی ٹیبل چئیر پر بیٹھ گئے 

کیا لو گی تم؟

شہرام نے شہزین کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا 

سینڈوچ اور کافی آرڈر کر دو شہرام نے کیفے پر کام کرنے والے لڑکے کو بلایا اورآرڈر کر دیا 

شہزین میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں 

شہرام نے کچھ توقف کے بعد بات شروع کی 

شہزین چونکی ۔۔۔۔۔گو کہ اس کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کیا کہنے والا ہے پھر بھی بولی 

شہرام ایسی کیا بات ہے جس کےلئے تم نے صرف مجھے ہی اپنی سالگرہ پر خصوصی طور پر انوائٹ کیا ہے اور اب یہ تمہید؟؟؟

شہرام مسکرایا 

شہزین میں تمہیں اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں اور وہ سب کہنا چاہتا ہوں جو شاید تم محسوس تو کرتی ہو گی لیکن آج زبان سے بھی اقرار ہو جائے گا 

شہرام نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا 

شہزین انجان بنی بیٹھی اس کی بات کو سننے لگی 

دیکھو شہزین میرا تعلق ایک عام سی فیملی سے ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اور ان کی تمام امیدوں کا مرکز بھی ۔۔۔۔۔میری زندگی کا مقصد اپنے ماں باپ کو ہر وہ آسائش دینا ہے جس سے وہ آج تک محروم رہے ہیں سخت محنت اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مجھے یقین ہے کہ میں یہ سب کر لوں گا 

لیکن شہزین اگر اس سب میں تم میرے ساتھ ہوئیں تو میری منزل آسان ہو جائے گی ۔۔۔وہ بہت جذب سے ہولے ہولے سب کہہ رہا تھا اور شہزین بس اس کو دیکھ رہی تھی 

بولو شہزین!!!! کیا تم میرا ساتھ دو گی؟؟

شہزین ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی 

یہ تم کیا کہہ رہے ہو شہرام؟؟

تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟؟

میں تمہیں صرف اچھا دوست سمجھتی ہوں جس کے ساتھ وقت گزارنے میں مجھے مزہ آتا ہے لیکن تم؟؟؟

تم تو ذیادہ ہی امیدیں لگا بیٹھے ۔۔۔

سنو شہرام میری لائف کی پلاننگ میں کسی بھی ایسے شخص کی گنجائش نہیں جو خود لڑکھڑا رہا ہو سوچو یار وہ مجھے کیا سنبھالے گا؟؟؟

شہرام دم بخود رہ گیا اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا زلت اور شرمندگی سے اس سے الفاظ نہیں بن پا رہے تھے جن سے وہ شہزین کی باتوں کا جواب دیتا 

شہزین غصے سے لال پیلی ہوتی اپنی کلاس میں چلی آئی 

آج شہرام کا چیپٹر بھی کلوز ہو گیا ۔۔۔۔اس نے صبغہ کو جب چپکے سے بتایا تو وہ حیران رہ گئی 

کیوں یار ۔۔۔۔۔اتنا اچھا تو ہے وہ!!!!!

اتنا سلجھا ہوا ۔۔۔۔۔ویسے بھی تم دونوں کی اتنے عرصے سے اچھی دوستی ہے 

شہزین نے اس کو ساری بات بتائی 

ہاں تو شہزین اس میں برائی ہی کیا ہے اس نے کون سا تم سے کچھ ایسا کہہ دیا اپنی زندگی، اپنے مستقبل کا فیصلہ آخر ایک دن تو تم نے کرنا ہی ہے تو شہرام کیوں نہیں؟؟؟

نہیں صبغہ ہرگز نہیں،  ،،

یہ مرد ذات کسی کی نہیں ہوتی ۔۔۔۔وفا کیا ہوتی ہے ان کو کیا معلوم؟؟؟یہ بس اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ہم جیسی لڑکیوں کوپھانس کر محض اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں اور جب چھوڑنے پہ آتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے 

شہزین روتی جا رہی تھی 

میری بہن کی موت کا ذمہ دار بھی تو ایک بے وفا مرد ہی تھا جس کو آخری وقت تک پکارتی رہی 

کیا ہو جاتا اگر وہ چند لمحوں کے لیے آ جاتا؟؟؟میری بہن کی آخری سانسیں تو آسان ہو جاتیں 

صبغہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ٹوٹی ہوئی شہزین کو کیسے سنبھالے 

دیکھو شہزین ۔۔تمام مرد ایک جیسے نہیں ہوتے اچھے برے لوگ ہر جگہ ہی ہوتے ہیں دنیا میں ہر چیز کی ایک ضد ہے جیسے اچھائی اور برائی، ،،،وفا اور بے وفائی ۔۔۔۔جہاں اندھیرا ہے وہیں روشنی بھی ہوتی ہے، ،،اگر رات اپنی چادر پھیلائے تو آخر صبح کا اجالا اس چادر کو لپیٹ ہی دیتا ہے 

یار اگر ہم ہر چیز کا برا پہلو ہی ڈھونڈنا چاہیں گے تو ہمیں برا ہی ملے گا نہ ۔۔۔۔

آگر آج تم کسی سے بے وفائی کرو گی تو کیا دنیا کی ہر لڑکی بے وفا ہے؟؟

شہزین میری جان!!!!اپنی سوچ کو بدلو ورنہ اس دنیا میں اکیلی رہ جائو گی 

صبغہ بہت پیار سے، مختلف تاویلیں دے دے شہزین کو سمجھا رہی تھی 

وہ شہزین ہی کیا 

جو سمجھ جاتی 

وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا یونیورسٹی میں نیا سیشن شروع ہو رہا تھا ہر ڈیپارٹمنٹ میں نئے داخلے ہو رہے تھے انہی دنوں ان کے ڈیپارٹمنٹ میں علی مقتدر نامی سٹوڈنٹ کی آمد کے خوب چرچے ہونے لگے موصوف اپنی برانڈ نیو بڑی سی کار لئے جب ڈیپارٹمنٹ کے گیٹ پہ اترتے تو سب ان کو ملنے والے پروٹوکول پر ششدر رہ جاتے دیکھتے ہی دیکھتے علی مقتدر ڈیپارٹمنٹ کی ہر دلعزیز شخصیت بن گیا ہر کوئی اس سے دوستی کرنے کے چکر میں تھا 

لڑکیاں بھی اس کے آگے پیچھے گھومتیں، ،،ہر کوئی اس کی ظاہری شان و شوکت سے مرعوب تھا اس سب میں شہزین بھلا کیسے پیچھے رہتی وہ تو جیسے اپنے نئے شکار کی تلاش میں تھی 

رفتہ رفتہ شہزین اور علی مقتدر میں قربتیں بڑھنے لگیں دونوں کا ذیادہ تر وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزرنے لگا 

دونوں یونیورسٹی میں تو ملتے ہی تھے اب باہر بھی ملنے لگے 

صبغہ کو شہزین کا یہ میل ملاقات بلکل پسند نہیں تھا وہ شہزین کو بہت سمجھاتی 

دیکھو شہزین یہ بگڑا ہوا امیر زادہ تمہیں کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دے ایسے لوگ محض وقت گزاری ہی کرتے ہیں اور لڑکی کی عزت آبگینے سے بھی نازک ہوتی ہے ایک بار کی ٹھوکر سے آنے والی دراڑ کبھی دور نہیں ہوتی چاہے لاکھ کوشش کرو 

تم جانتی نہیں صبغہ وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے ۔۔۔۔شہزین کہاں باز آنے والی تھی 

صبغہ مجھے تو لگتا ہے جو میں مرد کی بے وفائی کا بدلہ لینے نکلی تھی اس کے سامنے ہار گئ ہوں میری سوچوں، میرے جذبات پر اب علی مقتدر ہی قابض ہے 

یار اس کی اور ہماری کلاس میں بہت فرق ہے کہاں اس کی ایلیٹ کلاس ۔۔۔کہاں ہم متوسط طبقے کے لوگ ۔۔۔۔۔۔

ان کے لیے ہماری حیثیت چیونٹیوں سے ذیادہ نہیں ۔۔۔۔۔خدا کے لیے اپنے بڑھتے ہوئے قدم یہیں روک لو مجھے تو یہ سوچ کر جھرجھری آتی ہے کہ انکل اور آنٹی کو پتہ چلے گا تو ان پر کیا بیتے گی 

صبغہ کی ہزار منتوں سماجتوں کا شہزین پر کوئی اثر نہ تھا وہ تو جیسے علی مقتدر کے پیچھے دیوانی ہوئی جا رہی تھی 

علی مقتدر بھی اس کی دیوانگی کو بھانپ گیا تھا نجانے کہاں سے ایسے الفاظ ڈھونڈ کر اس پر ڈورے ڈالتا کہ شہزین بے خود ہو جاتی 

سنو شہزین ۔۔۔۔۔۔میں کبھی ہارا نہیں تھا لیکن تمہاری اس من موہنی صورت اور جھیل سی آنکھوں کے سامنے خود کو بے بس سمجھتا ہوں 

الفاظ کیا تھے ۔۔۔۔ایسا امرت تھے کہ شہزین کے سارے وجود میں سرایت کر جاتے اور وہ خود کو یونیورسٹی کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی جاتی 

علی مقتدر اور شہزین کی قربتوں پر سارا ڈیپارٹمنٹ چہ میگوئیاں کرتا لیکن دونوں کو کوئی پرواہ نہیں تھی اب تو شہزین صبغہ سے بھی لئے دیے ہی رہتی اس کو صبغہ کا سمجھانا بہت کھلتا تھا 

کل تمہاری کوئی خاص مصروفیت تو نہیں شہزین؟؟

علی مقتدر اور شہزین ساتھ ساتھ چل رہے تو اچانک رک کر اس نے شہزین سے پوچھا 

نہیں ۔۔۔۔۔کوئی خاص نہیں ۔۔۔

شہزین تھوڑا سوچتے ہوئے بولی 

کیوں کوئی پروگرام ہے تمہارا؟؟اس نے علی مقتدر سے پوچھا 

ہاں ایک گیٹ ٹو گیدر ہے میرے اپارٹمنٹ پہ ۔۔۔۔۔آگر تم آئو گی تو مجھے اچھا لگے گا 

اور کون کون آ رہا ہے؟؟شہزین بولی 

ہیں اور کچھ دوست ۔۔۔تمہیں ان سے ملوانا ہے 

اوکے سر ۔۔۔۔آپ مجھے ٹائمنگ واٹس ایپ کر دیجیئے گا میں حاضر ہو جائوں گی 

شہزین شوخی سے بولی 

دونوں مسکرا دیئے 

علی مقتدر نے اس کو ٹائم اور جگہ کی ساری تفصیلات بتا دیں 

شہزین نے وقت مقررہ پر پہنچنے کےلئے خوب تیاری کی برانڈڈ سوٹ، جوتے، پرس، ،جیولری غرضیکہ پوری طرح سج دھج کر وہ نکلی 

صبغہ نے پوچھا بھی کہ کہاں کی تیاریاں ہیں لیکن اس نے کچھ نہ بتایا 

اب وہ علی مقتدر کے اپارٹمنٹ پر پہنچ چکی تھی گارڈ نے علی مقتدر کو اس کےآنے کی اطلاع دی تو خود اس کو گیٹ پر رسیو کرنے آیا 

وہ علی مقتدر کے ساتھ ساتھ چلتی اندر آئی ۔۔۔لیکن کا ماحول دیکھ کر گڑبڑا گئی اندر سے سگریٹ اور شراب کی شدید بدبو آ رہی تھی کچھ لڑکے نشہ میں دھت تھے اور دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے 

شہزین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس کے قدم پتھر کے ہو گئے اس نے حواس باختہ ہو کر علی مقتدر کی طرف دیکھا 

کیا ہوا میری جان ۔۔۔علی مقتدر اس کے بہت قریب ہو رہا تھا اتنے میں ایک اور لڑکا آگے بڑھا اس نے شہزین کے گرداپنےبازو پھیلائے اور بولا 

آئو بھئی تتلی !!!!بہت انتظار کروایا تم نے 

شہزین اس کے انداز پر سخت خوفزدہ ہو گئ اس نے بے بسی سے مدد کےلئے علی مقتدر کی طرف دیکھا جو انجان بنا کھڑا تھا 

مت گبھرائو یار ۔۔۔۔۔۔اپنے ہی دوست ہیں 

وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا 

اب شہزین کےلئے خود کو بچانا اور یہاں سے نکلنا ایک چیلنج تھا اس کو اپنی بے بسی اور علی مقتدر کی اصلیت پر بہت رونا آیا ایسے میں اسے صبغہ کی تمام باتیں اور شہرام کی بے لوث محبت شدت سے یاد آئیں 

اس نے اپنے حواس بحال کرنے شروع کیے تمام صورتحال اور ماحول کا جائزہ لیا اور وہاں سے نکلنے کی تدبیر سوچنے لگی 

اس کی خوش قسمتی تھی کہ علی مقتدر اس کو اپنی طرف سے اپنے فحش دوستوں کے حوالے کر کے خود کسی کام سے اندر چلا گیا تھا 

تمام لڑکے نشے میں مست تھے لہذا شہزین کے ارادوں کا ان کو علم نہ ہو سکا 

وہ گیٹ کی طرف لپکی گارڈ بھی شاید علی مقتدر کی آواز پر اندر چلا گیا تھا شہزین کی تدبیر پر تقدیر نے مدد کی اور وہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئ 

جیسے تیسے وہ ہاسٹل پہنچی سامنے ہی اس کو صبغہ نظر آئی جو شہزین کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہو گئی تھی 

شہزین نے صبغہ کو تمام روداد سنائی اور اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی 

صبغہ مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔میں سرا سر غلط تھی میں اندھی بہری بن کر تباہی کے رستے پر چل رہی تھی ۔۔۔میں یہ کیا کرتی رہی 

اوہ میرے خدا!!! یہ میں کیا کر بیٹھی 

اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس کے آنسوؤں کو دیکھ کر صبغہ کا دل کٹ رہا تھا 

شہزین سنبھالو خود کو ۔۔۔۔۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تمہاری عزت محفوظ رہی ۔۔۔۔یہ تمہارے ماں باپ کی دعائیں تھیں جو تمہاری ڈھال بن گئیں جو سخت اندھیرے میں تمہارے لئے روشنی کا کام کر گئیں 

اس خوفناک حادثے نے شہزین کو بدل کر رکھ دیا تھا اب وہ ہر وقت صبغہ کے ساتھ ساتھ ہوتی دونوں پوری طرح سے اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئیں 

صبغہ کے بھائی صائم کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں صائم اپنی پڑھائی مکمل کر کے مقامی کالج میں سروس کرنے لگا فارحہ اس کی کولیگ تھی دونوں کی پسند اور والدین کی رضامندی سے یہ رشتہ طے پایا تھا صبغہ اپنے اکلوتے بھائی کی شادی پر بے حد خوش تھی زور وشور سے شادی کی تیاریاں کی جا رہی تھیں شہزین بھی اس سب میں پیش پیش تھی 

مہندی، بارات، ولیمہ غرض کہ ہر موقع کے لیے دونوں نے تقریبا ایک جیسے لباس تیار کروائے تھے شہزین کے گھر والے بھی اس شادی میں ہر موقع پر موجود تھے 

شادی کی گہما گہمی ختم ہوئئ تو پھر وہی روٹین کی زندگی تھی انہی دنوں صبغہ کی امی نے شہزین کے لئیے ایک رشتہ کے بارے میں بتایا 

ہوا یوں کہ صائم کی شادی میں دلہن کی ممانی کو شہزین پسند آ گئی وہ اپنے بیٹے کےلئے رشتہ دیکھ رہی تھیں بیٹا بھی کیسا سعادتمند کہ اس نے اپنے لئے لڑکی منتخب کرنے کا اختیار مکمل طور پر اپنی ماں کو دے رکھا تھا 

شہزین کے والدین کو اس رشتے کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے شہزین کی رضامندی سے ہاں کر دی انہوں نے شہزین کو اجازت دے رکھی تھی کہ اگر وہ اپنی تسلی کے لئے ایک بار لڑکے کو دیکھ لے تو زیادہ بہتر ہے لیکن شہزین نے انکار کردیا ماضی کے تلخ تجربات نے اس کو بہت حقیقت پسند بنا دیا تھا اس کو اس بات کا یقین تھا کہ میرے والدین نے فیصلہ کیا ہے تو بہترین ہو گا 

بس اس نے یہ شرط رکھی کہ پہلے وہ پڑھائی مکمل کرے گی پھر رخصتی ہو گی اس پر اس کے سسرال والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا 

آخر کار وقت مقررہ پر شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں اب کی بار تیاریوں میں صبغہ کی بھابھی فارحہ بھی شامل تھی صبغہ اپنی سہیلی کے بچھڑ جانے پر بہت رنجیدہ ہو جاتی جس پر فارحہ اسے یاد دلاتی 

فکر مت کرو تمہاری رخصتی بھی بس ہونے کو ہے احمر عالم کو جاب ملنے کی دیر ہے ۔۔۔۔۔۔

فارحہ اس کو شرارت سے چھیڑتی جس پر وہ جھینپ جاتی ۔۔احمر عالم اس کا کزن اور منگیتر تھا جس سے اس کی منگنی طے تھی 

آخر کار وقت مقررہ پر شہزین کی شادی کے فنکشن شروع ہو گئے سب نے خوب ہلہ گلہ کیا اور شہزین ماں باپ کی دعاؤں کے سائے میں پیا دیس سدھار گئی 

سسرال میں اس کا شاندار استقبال کیا گیا رسومات کی ادائیگی کے بعد دلہن کو اس کے کمرے میں لایا گیا 

شہزین حجلہ عروسی میں بیٹھی اپنے دلہا کا انتظار کر رہی تھی جس سے اس کا نصیب تمام عمر کے لئے جڑ گیا تھا 

کمرے کا دروازہ کھلا اور شہزین نے آنکھیں اوپر اٹھائیں وہ دم بخود رہ گئی وہ سخت حیرانی سے اپنے دلہا کو دیکھ رہی تھی شہرام اس کے سامنے ۔۔اس کے شوہر کی حیثیت سے موجود تھا 

شہرام اس کو دیکھ کر مسکرایا 

وہ شہزین کے بلکل قریب تھا اس نے شہزین کا ہاتھ تھام لیا 

دیکھا شہزین ۔۔۔میری محبت، ،میری لگن کتنی سچی تھی کہ خدا نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کا نصیب بنا دیا ۔۔۔تمہیں شاید معلوم نہ ہو لیکن مجھے معلوم تھا کہ تم میری دلہن بننے والی ہو 

اصل میں میں نے فارحہ سے کہا تھا کہ مجھے اس لڑکی کی تصویر تو بھیج دے جس کے ساتھ میں نے تمام عمر گزارا کرنا ہے ۔۔۔وہ شرارت سے بولا 

فارحہ نے جب مجھے تصویر بھیجی تو یقین کرو یار ۔۔۔۔۔میں کتنا خوش تھا میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا جس کو اس کی محبت ملنے جا رہی تھی 

شہزین پہلے تو خوفزدہ تھی کیونکہ اس کو اپنی آخری دفعہ کہے گئے زہر آلود الفاظ سب یاد آ رہے تھے لیکن اب شہرام کی خوشی اور والہانہ پن دیکھ کر وہ بھی مسکرا اٹھی .

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button