شاعری

کہیں نغمگی میں وہ بین تھے۔۔۔۔۔

کہیں نغمگی میں وہ بین تھے
کہ سماعتوں نے سنے نہیں

کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیسؔ نے بھی کہے نہیں

مری عدل گاہوں کی مصلحت
مرے قاتلوں کی وکیل ہے

مرے خانقاہوں کی منزلت
مری بزدلی کی دلیل ہے

مرے پاسباں مرے نقب زن
مرا مُلک، مِلک یتیم ہے

مرا دیس امیر سپاہ کا ہے
مرا شہر ، مال غنیم ہے

یہاں سب کے نرخ جدا جدا
اسے مول لو، اسے تول دو

جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دہن خزانے کا کھول دو

اسی عرصۂ شب ہجر میں
یوں ہی ایک عمر گزر گئی

کبھی روز وصل بھی دیکھتے
یہ جو آرزو تھی وہ مر گئی

یہاں روز حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روز جزا نہیں

یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت میں بھی شفا نہیں !

احمد فراز

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button