شاعری

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

گئے دِنوں کا سُراغ لے کر ، کِدھر سے آیا ، کِدھر گیا وُہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وُہ

بَس ایک موتی سی چھب دِکھا کر
بَس ایک میٹھی سی دُھن سُنا کر
سِتارۂ شام بن کے آیا ، برنگِ خُوابِ سحر گیا وُہ

خوشی کی رُت ہو کہ غَم کا موسم
نظر اُسے ڈُھونڈتی ہے ہر دٙم
وُہ بُوئے گُل تھا کہ نغمۂ جاں ، مِرے تو دِل میں اُتر گیا وُہ

نہ اَب وُہ یادوں کا چَڑھتا دَریا
نہ فُرصتوں کی اُداس برکھا
یُونہی ذرا سی کسک ہے دِل میں ، جو زخم گہرا تھا بَھر گیا وُہ

کُچھ اَب سَنبھلنے لگی ہے جاں بھی
بَدل چلا دٙورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹَل گئی ہے ، جو دِن کَڑا تھا گُزر گیا وُہ

بَس ایک منزل ہے بوالہوس کی
ہزار راستے ہیں اہلِ دِل کے
یہی تو ہے فرق مُجھ میں ، اس میں گُزر گیا میں ، ٹَھہر گیا وُہ

شِکستہ پا راہ میں کھڑا ہُوں
گئے دِنوں کو بُلا رہا ہُوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا ، مثالِ گردِ سفر گیا وُہ

میرا تو خُون ہو گیا ہے پانی
سِتمگروں کی پَلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دِل سے ، نہ جانے کیوں بے اَثر گیا وُہ

وُہ میکدے کو جگانے والا
وُہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کَیا اُس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وُہ

وُہ ہجر کی رات کا سِتارہ
وُہ ہَم نفس ، ہَم سُخن ہمارا
سَدا رہے اُس کا نام پیارا ،،، سُنا ہے کل رات مٙر گیا وُہ

وُہ جس کے شانے پہ ہاتھ رَکھ کر
سَفر کِیا تُو نے منزلوں کا
تِری گلی سے نہ جانے کیوں آج ، سٙر جُھکائے گُزر گیا وُہ

وُہ رات کا بے نوا مُسافِر
وُہ تیرا شاعر ، وُہ تیرا ناصرؔ
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا ، پِھر نہ جانے کِدھر گیا وُہ

شاعر : ناصرؔ کاظمی
(دِیوان)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button