مضامین

یزید کے دور میں حسین کی ضرورت

اور گمان یہ کہتا ہے جب یہ چمکتی دمکتی اور مہکتی لاش بار گاہ رسالت میں پہنچی ہو گی تو محبوب خدا نے آٹھ کر استقبال کیا ہو گا اسے سینے سے لگایا ہو گا، اس کا ماتھا چوما ہو گا، اس کی سوجی ہوئی زبان پر انگشت مبارک پھیری ہو گی، اپنے دست مبارک سے اس کی گردن کی ساری سلوٹیں صاف کی ہوں گی آنکھوں پر پھونک مار کر اذیت کے سارے نشاں مٹانے ہوں گے اور پھر اپنی نظر مبارک سے لاش کے سارے چیختے چلاتے دھو کر آگے پیچھے دیکھا ہو گا اور پھر ہجوم سے پوچھا ہو گا، ،محد علی کہاں ہے؟،،قائداعظم فورا لوگوں کو چیر کر سامنے آ کھڑے ہوئے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے ہوں گے اور پھر کندھے پر ہاتھ رکھ کر مہکتے لہجے میں فرمایا ہو گا، ،محد علی تم اپنے حسین سے نہیں ملو گے، ؟,دیکھو آج اس پر کتنا روپ ہے، قائداعظم نے ادب سے سر جھکایا ہو گا، آنکھیں نیچی کی ہوں گی اور پھر عرض کیا ہو گا، ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا حسین مجھ سے پوچھتا تھا، ،نانا جی آخر مجھے قتل کیوں کیا گیا؟”حضور نے یہ سن کر تبسم کیا ہو گا اور پھر قائد سے مخاطب ہو کر فرمایا ہو گا:

،،محد علی تم اس سے کیوں نہیں کہہ دیتے یزیدوں کے دور میں حسینوں کی ضرورت نہیں رہا کرتی-”

(اقتباس از جاوید چوہدری، ،زیرو پوائنٹ، ،)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button