شاعری

یہ کاغذی پھول جیسے چہرے۔۔۔

یہ کاغذی پھول جیسے چہرے
مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا
انہیں کوئ کاش یہ بتادے
مقام اونچا ہے سادگی کا
انہیں بھلا زخم کی خبر کیا؟
کہ تیر چلتے ہُوئے نہ دیکھا
اداس آنکھوں میں آرزو کا
خون جلتے ہُوئے نہ دیکھا
اندھیرا چھایا ہے انکے آگے
حسِین غفلت کی روشنی کا
یہ صحنِ گلشن میں جب گئے ہیں
بہار ہی لوٹ لے گئے ہیں
جہاں گئے ہیں یہ تو دلوں کا
قرار ہی لوٹ لے گئے ہیں
کہ دل دکھانا ہے انکا شیوہ
انہیں ہے احساس کب کسی کا؟
میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں
آج سچ بولنے لگا ہُوں
میں ہوکے مجبور اپنے گیتوں میں
ذہر پھر گھولنے لگا ہُوں
یہ ذہر شائد اڑادے نشہ
غرور میں ڈوبی زندگی کا

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button